ڈاکٹر مشتاق حسین
(وائس پرنسپل ،ڈائو کالج آف بایو ٹیکنالوجی،ڈائویونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)
علمِ جینیات کی اس شاخ کے ذریعے جان داروں میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کے ادویات کی افادیت پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے
گزشتہ نصف صدی میں سائنس کے کئی علوم نے اپنی علمی وسعت میں نئی بلندیاں حاصل کی ہیں، لیکن بلامبالغہ علم جینیات (Genetics)میں تحقیق و دریافت کرکے، جس معراج کو حاصل کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جینیات کی ابتدا مٹر کے پودوں پر آسٹریلیا کے ایک پادری گریلے گو مینڈل کے سادہ سے تجربات سے 1865ءمیں ہوئی۔
غالباً اس وقت اگر مینڈل سے ان تجربات کی افادیت کےبارے میں پوچھا جاتا تو بہت ممکن ہے کہ مینڈل کا جواب فقط تجسس کی پیاس کی تسکین کے سوا کچھ نہ ہوتا، لیکن بیسوی اور اکیسویں صدی میں جینیات میں ہونے والی تحضبات میں یہ بات انتہائی واضح کردی ہے کہ حیاتیاتی مظاہر کے بنیادی اسباب کی تلاش علم جینیات کے بغیر ناممکن ہے۔
جہاں 1944ءمیں ڈی این اے (DNA) کو جانوروں کی جینیاتی مادّہ تسلیم کیا گیا وہی تقریباً ایک دہائی کے بعد اس کی ساخت کا تعین وائٹ سن اینڈ کریک نے کردیا اور تحقیق کا وہ لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ، جس کی بدولت آج حیاتیاتی سائنس اس مقام پر کھڑی ہے ۔ جانداروں کی نمو، نسل در نسل منتقل ہونے والی بیماریوں اور کینسر جیسی پیچیدہ اور موذی بیماری کی سالمیانی حقیقت علم جینیات کی بدولت ہی حاصل ہوئی۔ نتیجتاً نہ صرف تحقیق کے نئے دروازے کھلے بلکہ ان سالمیاتی اہداف کا بھی تعین ہوا۔ جن کے خلاف ادویات اور ویکسینز بنائی جاسکتی ہیں۔
حتیٰ کہ اب جینیات اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں جینیاتی خرابیوں کی مکمل اور مستقل درستی بعداز قیاس نہیں۔ ان ہی جینیاتی تبدیلیوں میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کے باعث ایک مستند اور موثر دوا مریض میں ناصرف غیر موثر ہوجاتی ہے بلکہ کچھ حالات میں نقصان دہ اور جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ ان جینیاتی تبدیلیوں کا مطالبہ جینیات کی ایک ذیلی شاخ Pharma cogenouticsمیں کیا جاتا ہے۔ عام فہم زبان میں Pharmacogenomics جانداروں میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کی ادویات کی افادیت پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ ہے۔ Pharmacougenoumics کی بنیادی سمجھ پیدا کرنے کے لئے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ انسانوں اور جانوروں کے جسم میں ادویات عمومی طورپر کام کرتی ہے اور اپنا کام کرنے کے بعد یہ کیسے زائل ہوجاتی ہیں۔
عام طورپر کوئی بھی دوا جانداروں بشمول انسانوں کے جسم میں کسی خاص سالمے سے بطور ہدف جڑتی ہے۔ عام طورپر یہ سالمے پروٹین کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جانداروں میں بننے والی تمام پروٹین کی ساخت کا تعین ان کا جینیاتی مادّہ ڈی این اے (DNA) کرتاہے۔ بہر حال ادویاتی سالمے اپنی اہدافی پروٹین جڑنے کے بعد مرضی کی مناسبت سے یا تو ان پروٹین کے کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے یا کم کرتی ہے یا بالواسطہ سالمیاتی عوامل (Molecular Pathway)میں توازن پیدا کرتی ہیں جو بیماری کے دوران غیر متوازن ہوگئے ہوتے ہیں۔
نتیجتاً بیماری کی علامات اور شدت میں بتدریج کمی واقع ہوتی ہے اور مرض میں افاقہ ہوتا ہے۔ اپنے کام کرنے کے بعد اس بات کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ دوا انسانی جسم میں اپنی اصلی حالت یا تو تبدیل کردے یا پھر مکمل طورپر خارج ہوجائے، کیوں کہ اگر دوا اپنی اصلی حالت میں انسانی جسم میں مقررہ مدت سے زیادہ برقراررہی تو وہ مستقل اپنی اہدافی پروٹین کے کام کرنے کی استطاعت کو بڑھاتی یا کم کرتی رہیں گی یا پھر مستقل ان (Molecular Pathway)کو چلاتی رہیں گی جو ابتدائی طورپر اسی دوا کے باعث توازن میں آچکے تھے۔
نتیجتاً یا تو دوا کے فائدہ مند اثرات ضائع ہوجاتے ہیں اور دوا اپنے نقصان دہ اثرات ظاہر کرنا شروع کردیتی ہے جنہیں عرف عام میں Side effectکہا جاتا ہے۔ انسانوں اور کئی جانداروں کے جسم میں ادویات کا براہ راست اخراج تقریباً ناممکن ہوتا ہے لیکن ان میں کچھ تبدیلیاں کرکے ان کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔ انسانوں اور جانداروں کے جسم میں یہ تبدیلیاں کچھ پروٹین کرتی ہیں جنہیں مجموعی طورپر Cytochromesیا P450کہا جاتا ہے۔
انسانی جینیاتی مادّے میں تقریباً 25,000 جینز ہوتے ہیں جن میں سے اٹھارہ جینز مختلف قسم کی Cytochromesپروٹین بناتے ہیں جن میںسےآٹھ پروٹینزادویات کے اندر سالمیاتی تبدیلیاں کرکے ان کے اثرات کو زائل کرتی ہیں چوں کہ جانوروں بشمول انسانوں کے جسم میں جگر زہرے مرکبات کے اثر کو زائل کرتا ہے۔
لہٰذا یہ پروٹینز بھی خصوصی طورپر جگر کے خلیات میں ہی بنتی ہیں اگر Cytochromesپروٹین کے جینز میں کچھ جینیاتی تبدیلیاں ہوجائیں تو یہ ادویات کو غیر موثر کرنے میں فعال نہیں رہتی، جس کے نتیجے میں ادویات کے Side effectظاہر ہوتے ہیں۔ اس بات کو مزید سمجھنے کے لئے ہم دو مختلف اددویات جوکہ ذیابیطس کے علاج میں استعمال کی جاتی ہے اور ایک دوا جو کہ بریسٹ کینسر کے علاج میں استعمال ہوتی ہے ،ان کا سہارا لیتے ہیں۔ ذیابیطس خون میں شکر کی مقدار کی زیادتی کا نام ہے جوکہ عام طورپر لبلبے سے نکلنے والی ایک پروٹین انسولین کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ذیابطیس کی دوا لبلبے کے خلیات پر SUR1نامی پروٹین سے جڑتی ہے، جس کی وجہ سے پوٹاشیم اور کیلشیئم کے Channels کےپروٹین اپنا کام شروع کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں لبلبے کے خلیات میں کیلشیئم داخل ہوتا ہے اور خلیات اپنے اندر محفوظ انسولین خارج کردیتے ہیں۔ یہ انسولین بالآخر خون میں موجود شکر کی زائد مقدار میں کمی کردیتا ہے۔
نتیجتاً ذیابیطس کنٹرول میں رہتی ہے ،اس کی دوا اپنا کام کرنے کے بعد جگر میں داخل ہوتی ہے ۔جہاں Cyp2C9نامی Cytochrome اسے توڑ کر اس کے اثرا کو زائد کردیتا ہے۔ البتہ کچھ ذیابیطس کے مریضوں میں Cy2C9کے جین میں دو خاص تبدیلیاں Cy2C9*2 اور Cy2C9*3پائی جاتی ہیں اور ان تبدیل شدہ جین میںذیابطیس کی دوا کے اثر کو زائل کرنے کی صلاحیت خاصی کم ہوتی ہے۔ نتیجتاً دوااپنی اصل شکل میں جسم میں جمع رہتی ہے اور مستقل لبلبے سے انسولین کا اخراج کرتی رہتی ہے جوکہ اس صورت ِحال میں خون میں شکر کی مقدار کو خطرناک حد تک کم کردیتی ہے ،جس کے باعث موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
چھاتی کے سرطان میں استعمال ہونے والی دوا ہر طرح کے خلیات کے لئے زہر قاتل ہے، البتہ چوں کہ کینسر کے خلیات عام خلیات کے مقابلے میں انتہائی تیزی سے تقسیم ہوتے ہیں ،جس کے باعث اس دوا کا اثر ان خلیات پر زیادہ ہوتا ہے۔ چھاتی کے سرطان کی دوا کو Cyp3A4نامی Cytochromeتوڑ کر زائل کردیتا ہے ،البتہ کچھ مریضوں میں Cyp3A4میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کے باعث دواجسم میں اپنی اصل شکل میں برقرار رہتی ہے، جس کے باعث کیسنر کے خلیات کو مارنے کے بعد وہ جسم کے نارمل خلیات کو بھی مارنا شروع کردیتی ہے۔ نتیجتاً کیمو تھراپی کے Side effectظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ Cytochromeکے علاوہ بھی انسانی جسم میں کئی اور پروٹینز ادویات کی افادیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ البتہ تقریباً 75 فی صد ادویات کے اثر کو زائل کرنے میں Cytochrome کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کئی مغربی ممالک میں ادویات کے تعین سے پہلے مریض کے Cytochrome کی جینیاتی تشخیص کرلی جاتی ہے اور نتائج کو دیکھتے ہوئے کسی دوا کا انتخاب کیا جاتا ہے ،تاکہ مرض کو قابو پانے میں مخصوص دوا سے بہتر نتائج حاصل کئے جاسکیں۔
اس طریقہ کار کو personalized medicine کہا جاتا ہے ۔اس بات کی اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں بھی کئی بیماریوں کے لئے اس طریقہ کار کو اپنایا جائے۔