ترکی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا سہرا رجب طیب اردوان کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے ابتدائی دور میں ملک میں کسی سیاسی مسئلے میں الجھے بغیر ترقی کی طرف خصوصی توجہ دی اور ملکی اقتصادیات، جو آئی ایم ایف کے قرضے کی وجہ سے مفلوج ہو کررہ گئی تھی، کو نئے سرے سے مضبوط کیا اورترکی کو دنیا کی سولہویں بڑی اقتصادی قوت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ ابتدا میں اردوان نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن و سکون سے رہنے کے لئے ’’صفر پرابلم‘‘ کی پالیسی کو اختیار کیا۔ کردوں کے مسئلے کو حل کرنے کی نیک نیتی سے کوشش بھی کی اور کافی حد تک وہ اس مسئلے کو حل کرنے کی جانب اقدامات بھی اٹھا چکے تھے لیکن ملک کے اندر ترک قوم پسندوں نے ان کے لیے مشکلات کھڑی کرنا شروع کردیں اور انہوں نے کردوں کے جس مسئلے کو جمہوری طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی تھی، پارٹی پر پڑنے والے منفی اثرات کی بدولت اس سےباز رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور ترک قوم پسند جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) سے اتحاد کرنے پر مجبور ہوگئے اور اپنی پارٹی کی پالیسی پر بھی نظر ثانی کی۔ خاص طور پر 15جولائی 2016کی ناکام بغاوت کے بعد صدر اردوان نے فوج پر مکمل گرفت حاصل کرلی اور فوج کو ان عناصر سے پاک کردیا جو صدر اردوان کے لئے خطرہ تصور کیے جاتے تھے۔ اس ناکام بغاوت کے بعد ہی انہوں نےترکی کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کے لئے نئے سرے سے خارجہ پالیسی کو مرتب کیا اور بڑی تعداد میں افریقہ اور لاطینی امریکہ میں اپنے سفارت خانے کھولے اور ان ممالک کے ساتھ قریبی روابط قائم کیے جن کو ترکی نے پہلے فراموش کر رکھا تھا ۔ انہوں نے امریکہ کی پروا کیے بغیر سنہ 2010میں فلسطین کی انسانی بنیادوں پر کی جانے والی امداد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر اسرائیل کےصدر کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر کھری کھری سنا دیں اور امریکہ کے سفارتخانے کو مشرقی القدس منتقل کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے منافی قرار دیا۔ انہو ں نے ایسے وقت میں، جب تمام مغربی ممالک اور خاص طور پر پاکستان کے قریب سمجھے جانے والے اسلامی ممالک مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے سے کترا رہے تھے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی اور بھارت کو ظالم اور جارح ملک قرار دیا۔شام میں ترکی نے جو پالیسی اختیار کررکھی ہے، اس کی وجہ سے امریکہ جیسے ملک کو کردوں کی حمایت سے پیچھے ہٹنا پڑا اور ترکی خطے میں فوجی قوت کے لحاظ سے اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہا۔ صدر اردوان برملا کہہ چکے ہیں کہ ترکی عالمی سطح پر اپنے حقوق کا دفاع کرتا رہے گااور شام، لیبیا اور بحیرۂ روم سے لے کرکاکیشیا تک اپنے دوستوں اور مظلوم بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
اُدھر یونان اور ترکی کے مابین کشیدگی اس و قت عروج پر پہنچ گئی جب ترکی نے قبرص کے کھلے سمندر میں گیس تلاش کرنے کے لئے ’’اورچ‘‘ نامی ڈرلنگ بحری جہاز روانہ کیا جبکہ اس سے قبل اسرائیل، یونان، قبرص، اٹلی اور مصر بحیرۂ روم کے خطے میں گیس کی موجودگی کے امکانات پر ایک مشترکہ معاہدے پر دستخط کرچکے تھے جبکہ ترکی کو فراموش کردیا گیا تھا۔ اِن ممالک کی جانب سے ترکی کو تنہا چھوڑنے پر ترکی نے جوابی کارروائی کی اور لیبیا کی قانونی حکومت کے ساتھ معاہدہ طے کرتے ہوئے قبرص کے کھلے سمندر میں یونان کے لئے مشکلات کھڑی کردیں۔ اگرچہ اس دوران فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے بھی مشرقِ وسطیٰ میں اپنا حلقہ اثر بڑھانے کی تگ و دو کی لیکن ترکی نے لیبیا میں اپنی پوزیشن مضبوط بناتے ہوئے میکرون کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ صدر اردوان فرانسیسی صدر میکرون کو اسلام دشمن رویہ اختیار کرنے پر بھی سخت تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں اور توہین آمیز خاکوں کی نمائش کو ایک بیمار اور گھٹیا ذہن کی عکاسی قرار دیتے ہوئے انہیں ذہنی مریض قرار دے چکے ہیں جبکہ فرانس نے صدر اردوان کے اس بیان کے بعد ترکی کے اپنے سفیر کو واپس بلوا لیا ہے۔
ترکی اِس وقت آذربائیجان کو ملنے والی کامیابی پر بھی بہت خوش ہے کیونکہ آذر بائیجان کی کامیابی کے پیچھے ترکی کا ہاتھ ہے۔ روس اِس بار صدر رجب طیب اردوان کی وجہ سے کھل کر آرمینیا کی حمایت کرنے سے گریز کررہا ہے اور روس کے اسی رویے نے آذربائیجان کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیے۔ روس اور ترکی خطے میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگرچہ علاقائی معاملات پر دونوں ممالک کے مابین اختلافات موجود ہیں، اس کے باوجود ترکی اور روس کے درمیان گہرے کاروباری تعلقات بھی ہیں۔ روس ترکی کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور وہ ترکی کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے والا سب سے اہم ملک ہے۔ ترکی نے نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود امریکہ کی پروا کیے بغیر جس طریقے سے روس سے اینٹی میزائل سسٹم ایس400 خریدا ہے اور صدر ٹرمپ کے شدید دبائو اور انتباہ کے باوجود ٹیسٹ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس سے ترکی علاقے میں ایک نئی سپر پاور بن کر ابھر رہا ہے اور خطے میں مسلسل اپنی قوت میں اضافہ کرتا چلا آرہا ہے اور شاید اب اسے علاقائی سپر پاور بننے سے روکنے والا کوئی ملک یا قوت موجود نہیں ہے۔