پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک اہم موڑ کی حقیقی داستان۔۔۔ چیف جسٹس پاکستان ارشاد حسن خان کی سوانح عمری۔۔۔’’ارشاد نامہ‘‘ ۔۔۔طباعت کے آخری مراحل میں ۔۔۔ ان شاء اللہ 15نومبر 2020ء تک قارئین کے ہاتھوں میں ہوگی۔
’’ارشاد نامہ‘‘ ایک ایسے سائیکل سوار یتیم بچے کی کہانی ہے جو’ بیساکھیوں‘ کے بغیر پاکستان کا چیف جسٹس بن گیا۔ اس بچے کا بچپن،جوانی، تعلیم، وکالت، ججی اور ملک و قوم کی خدمات کی ہر منزل اور ہر مرحلہ سبق آموز ہے۔’’ارشاد نامہ ‘‘ میں یہ ساری تفصیل آگئی ہے کہ ذاتی زندگی میں کس طرح ناممکن کو ممکن اور مایوسی میں بدلا گیا۔
آرمی ٹیک اوور ہو ا تو میں چیف جسٹس نہیں تھا میں نے 26جنوری 2000ء کو چیف جسٹس پاکستان کا حلف اُٹھایا،تب آرمی ٹیک اوور کوچارماہ سے زائد ہو چکے تھے ۔ ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کے بارہ رُکنی بنچ کی اولین ترجیح یہ تھی کہ جمہوریت اور جمہوری ادارے کیسے بحال کیے جائیںاور فوج کو واپس بیرکوں میں کیسے بھیجا جائے،منصفانہ اور شفاف انتخابات کرائے جائیںاورملٹری کورٹس نہ بننے دی جائیں۔
ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے سے قبل لیگی لیڈر جناب سرتاج عزیز کی طرف سے نامور قانون دان جناب خالد انورکے ذریعے پٹیشن دائر کی گئی کہ اگرانتخابی فہرست کو اپ ڈیٹ نہیں کریں گےتو کروڑوں ووٹرز حقِ رائے دہی سے محروم رہ جائیں گے، اتنے لوگوں کی حق تلفی سے الیکشن شفاف کیسے ہو سکتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہمیں اس کام میں دو سال لگیں گے کیونکہ ساری الیکٹورل رول (انتخابی فہرستوں) کو اپ ڈیٹ کرانا ہے۔ حلقوں کی حد بندیاں کرانی ہیں،ان پر اعتراضات وصول کرنے ہیں۔ الیکٹورل رول کے اپ ڈیٹ ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، ہم نے کہا کہ جب ہم اس بات کا جوڈیشل نوٹس لیتے ہیں کہ الیکٹورل ر ول اپ ڈیٹ نہیں ہیں اور سبھی تسلیم بھی کر رہے ہیںکہ اس صورت میں کروڑوں ووٹرز حق رائے دہی سے محروم رہ جائیں گےتو ہم کیسے کہہ دیں کہ کل الیکشن کرا دو؟ ہمارا تو دل چاہتا ہے کہ فوراً الیکشن کرا دیں، مگر الیکٹورل رول اپ ڈیٹ نہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہ تھا، جبکہ چیف الیکشن کمشنربھی کہتے ہیں کہ انہیںان امور کے لئے دو سال کا عرصہ درکار ہے۔ اس پر ہم نے کہا کہ ہم فوجی حکومت کو تین سال دیتے ہیں اور اس مہلت کا پہلا دن ٹیک اوور سے شروع ہو گا، اس وقت ٹیک اوور کو چھ ماہ ہو گئے تھے چنانچہ باقی ڈھائی سال میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔عزت مآب چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد اور نامور قانون دانوں کی قیمتی آرا بھی ارشاد نامہ کی زینت ہیں، اگر میں ان آرا کامختصر ذکر نہ کروں تو نا شکری ہو گی۔
جنابِ چیف جسٹس پاکستان عزت مآب گلزاراحمد فرماتے ہیں، ’’اس فیصلے،مراد ظفر علی شاہ کیس کو بے حد محنت سے لکھا گیا ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی قانون کا بے انتہا ذکر آیا ہے۔۔۔یقیناً یہ فیصلہ اُ س وقت کے لحاظ سے جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔‘‘
معروف قانون دان ایس ایم ظفر، جو ظفر علی شاہ کیس میں بہ طور Amicus Curiaeپیش ہوئے، اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ ارشاد نامہ کے مصنف کا یہ دعویٰ کہ ’’ اگر ہم نے جنرل مشرف کو تین سال تک محدود نہ رکھا ہو تا تو کوئی بعید نہیں کہ وہ آج تک بیٹھے ہوتے‘‘۔محترم وسیم سجاد کی رائے میں ’’ارشاد نامہ ملک کی سیاسی و قانونی تاریخ کے لڑیچر میں نہایت قیمتی اضافہ ہے۔یقینِ واثق ہےکہ اسے قانون دانوں کے ساتھ ساتھ وکلاء، جج صاحبان اور تاریخ کے طلباء بھی بڑی دلچسپی سے پڑھیں گے۔‘‘
جناب اعتزاز احسن کہتے ہیں، ’’ تقسیم ہندوپاک سے قبل ہی والدین کے سہارے اور شفقت سے محروم ہو جانے والا بٹالہ کا یہ نوجوان آگ و پانی کے دشوار تر مراحل سے گزر کر پہلے اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے اور پھر وکالت کے بحرِ بیکراں میں چھلانگ لگا دیتا ہے اور ہائی کورٹ کا جج ، وفاقی سیکرٹری قانون اور سپریم کورٹ کا جج بن کر چیف جسٹس آف پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہو جاتا ہے۔یہ سفر نامہء حیات حیرت انگیز ہی نہیں، سبق آموز بھی ہے۔‘‘
محترم مخدوم علی خان فرماتے ہیں’’ظفر علی شاہ کیس کی پیروی نامور وکیل خالد انور نے کی تھی۔عدالت کے دوست و معاون وکیل ایس ایم ظفر تھے۔دونوں نے اپنی بحث میں واضح کر دیا تھا کہ وہ کسی ایسے فیصلے کے متمنی نہیں جس سے ملک انتشار کا شکار ہوجائے۔ ان کی یہ کوشش کامیاب رہی ، اسی فیصلے کے نتیجے میں انتخابات ہوئے ، آئین مکمل طور پر بحال ہوا اور 2002ء میں ایک ایسے جمہور ی سفر کا آغاز ہو اجو آج بھی جاری ہے۔ــ‘‘
آمدم برسرِ مطلب: ’’ارشاد نامہ‘‘ انا کی تسکین یا خود کو دیوتا بنانے یا اپنے آپ کو ہیرو اور بطلِ جلیل ثابت کرنے کے لئے نہیں لکھا گیا ۔ داستانِ حیات میں اپنے آپ کو بالکل اسی طرح پیش کیا گیا ہے جس طرح کہ میں ہوں۔ میں بھی دوسروں کی طرح ایک انسان ہوںمگر اس فرق کے ساتھ کہ میں نے بعض لوگوں کے برعکس حق پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ آیا تو بعض حلقوں نے یہ اعتراض جڑدیا کہ عدالتِ عظمیٰ نے جنرل مشرف کے مارشل لا کو ’’ کیوں ‘‘ ناجائز قرار نہیں دیا؟ ارشاد نامہ اسی ’’کیوں‘‘ کا جواب ہے، کتاب میں اُن تمام عوامل کا تفصیل سے ذکر کر دیا ہے جو اس فیصلے کے محرک بنے۔ اس فیصلے پر تنقید کرتے وقت یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ اکیلے ارشاد حسن خان کا نہیںبلکہ فاضل عدالت کے بارہ رکنی لارجر بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا۔
فیصلے کو اٹھارہ اُنیس سال ہو گئے ہیں ۔وطنِ عزیز میں جمہوریت کو پھلتے پھولتے دیکھ کر اطمینانِ قلبی کی نعمت سے سرشار ہو جاتا ہوں۔ عزت دینے والے ربِ ذوالجلال نے محبوبِ خلائق کے منصب سے سر فرازفرمایا ہے جس قدر شکر اداکروں‘ کم ہے۔