معروف فلم ساز، ہدایت کار، اَدیب، کہانی نویس، شاعر شباب کیرانوی ایک عہد ساز شخصیت تھے، جنہوں نے پاکستانی فلموں کی ترقّی و ترویج میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا اور پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ اُن کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی۔ شباب کیرانوی پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک ممتاز ترین نام تھے۔ ذرّے سے آفتاب بننے کا محاورہ شباب صاحب پر پورا اُترتا ہے۔
کہانی نویس، نغمہ نگار، ہدایت کار،فلم ساز، تقسیم کار، ہر شعبے میں انہوں نے فقیدالمثال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا اور بہ خوبی باور کرانے میں سُرخرو رہے کہ ایک معمولی شخص بھی کسی سفارش اور کسی بڑے سہارے کے بغیر بلندی کی چوٹیوں کو چُھو سکتا ہے۔ کیرانہ انڈیا کے مشہور ضلع مظفرنگر (اُترپردیش ) کا ایک معروف قصبہ ہے۔ اس قصبے میں سکونت پذیر ایک محنت کش مزدور حافظ محمد اسماعیل کے گھر میں شباب کیرانوی نے جنم لیا۔ والدین نے نام نذیر احمد رکھا۔
اپنے والد محمد اسماعیل کی طرح نذیر احمد نے بھی پندرہ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ پرائمری اسکول میں دوران تعلیم نذیر احمد کو شاعری کا شوق لاحق ہوا۔
انہوں نے شعر کہنے شروع کیے اور اس ضمن میں اپنا تخلص ’’شباب‘‘ رکھا، کیوں کہ وہ کیرانہ کے تھے، لہٰذا ’’شباب کیرانوی‘‘ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ خاندان کے دیگر افراد سمیت ہجرت کر کے لاہور آ کر بسے، یہاں بھی ان کی طبیعت کا میلان زیادہ تر شاعری کی طرف رہا اور اس ضمن میں وہ معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے شاگرد ہوگئے۔
شباب کیرانوی کا فلمی سفر فلم ’’جلن‘‘ سے بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی نویس و مکالمہ نویس کے شروع ہوا، جس میں نامور گلوکار عنایت حسین بھٹی بہ طور ہیرو متعارف ہوئے۔ اُن کی ہیروئن نادرہ بھی فلم ’’جلن‘‘ سے متعارف ہوئیں۔ دو ستمبر 1955ء کو ’’جلن‘‘ نمائش پذیر ہوئی اور اس کی ہدایات شباب کیرانوی کے دیرینہ دوست اے حمید بھاٹیا نے دی۔ ’’جلن‘‘ ہی شباب کیرانوی کی بہ طور فلمی شاعر اوّلین فلم ٹھہری، جس میں انہوں نے نغمات لکھے۔
٭اِک درد سا دل میں اُٹھتا ہے جب یاد کسی کی آتی ہے (عنایت حسین بھٹی)۔
٭اس دُنیا کا ہر افسانہ اک لڑکا ہے اک لڑکی ہے (زبیدہ خانم، عنایت حسین بھٹی)۔
٭سُن او جادگر بالموا تورے نین بڑے(زبیدہ خانم)۔
٭میری نظر سے چھپ کر تم دل میں آ گئے ہو (زبیدہ خانم)۔
٭کہتا ہے زمانہ پریت جسے وہ خواب ہے اک دیوانے کا (زبیدہ خانم)۔
٭آسماں والے ہر اک شے پہ حکومت ہے تیری (زبیدہ خانم)
اپنی اوّلین فلم میں چھ نغمات شباب کیرانوی نے رقم کیے۔ ’’جلن‘‘ کے موسیقار محمد علی منّو تھے اور وہ بھی بہ طور موسیقار اسی فلم’’جلن‘‘ سے متعارف ہوئے۔ ’’جلن‘‘ کے بعد شباب کیرانوی نے متعدد فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی، جن میں زیادہ تر اُن کی اپنی پروڈکشن کے بینر تلے فلمیں ہوا کرتی تھیں۔ اپنے دونوں صاحب زادوں ظفر شباب اور نذر شباب کی بھی بعض فلموں کے نغمات شباب کیرانوی نے تحریر کیے۔
اُن کے نغمات سے آراستہ فلموں میں ’’جلن‘‘ کے علاوہ ٹھنڈی سڑک (ریلیز دوبئی 1957ء، اداکار کمال کی پہلی فلم اور علی سفیان آفاقی کی بہ حیثیت کہانی نویس پہلی فلم)۔ عالم آراء (ریلیز 2 جنوری 1959ء، فلم ساز جے سی آنند اور ہدایت کار دائود چاند کی اس فلم میں شباب کیرانوی کے تحریرکردہ سات نغمات شامل تھے)۔ گلبدن (ریلیز 29 مارچ 1960ء، فلم ساز شباب کیرانوی، ہدایت کار اے حمید بھاٹیا کی اس جادوئی، ملبوساتی فلم کے لیے شباب کیرانوی نے چار نغمات تحریر کیے تھے)۔ ثریّا (ریلیز 13 جنوری 1961ء، شباب کیرانوی کی بہ طور ہدایت کار پہلی فلم، جس میں انہوں نے کہانی کے علاوہ چار نغمات بھی رقم کیے تھے)۔ سپیرن (ریلیز 8 دسمبر 1961ء، شباب پروڈکشن کی یہ فلم شباب کیرانوی نے پروڈیوس کی۔
دائود چاند نے اس کی ہدایات دیں۔ فلم کی کہانی کے علاوہ شباب کیرانوی نے سپیرن کے لیے تمام پانچ نغمات بھی تحریر کیے، جن میں احمد رشدی کا گایا یہ نغمہ ’’چاند سا مکھڑا گورا بدن دل میں لگائے گوری اگن‘‘ تو سپر ہٹ ثابت ہوا اور اس کی عمدہ گائیکی کے صلے میں احمد رشدی کو نگار ایوارڈ دیا گیا تھا)۔ مہتاب (ریلیز7 اگست 1962ء، شباب صاحب کی پروڈیوس اور ’’ڈائریکٹ کردہ اور اُن کی مکمل کہانی پر بنی اس مہتاب کے لیے انہوں نے تین نغمات بھی لکھے) ماں کے آنسو (ریلیز 15 مارچ 1963ء: اسے بھی انہوں نے پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیا۔ کہانی بھی لکھی اور دو نغمات بھی لکھے)۔ ناچے ناگن باجے بین (ریلیز 12 نومبر 1965ء، فلم ساز شباب کیرانوی، ہدایت کار حیدر چوہدری کی اس ملبوساتی کی کہانی انہوں نے لکھی اور اس فلم کے لیے انہوں نے یہ دل کش نغمہ لکھا، جسے نسیم بیگم نے موسیقار طالب جعفری کی خُوب صورت طرز پر گایا۔
٭ٹھنڈی پُونیا ساون مینہ ناچے گی ناگن باجے گی بین، گھر کا اُجالا (ریلیز 23 ستمبر 1966ء، فلم ساز شباب کیرانوی کی اس فلم کو ریاض احمد نے ڈائریکٹ کیا اور شباب صاحب نے اس فلم کے لیے دو نغمات لکھے تھے۔ انسانیت (ریلیز 24 فروری 1967ء، فلم ساز و ہدایت کار و کہانی نویس شباب کیرانوی کی انسانیت میں اُن کے رقم کردہ تینسماعتوں میں رس گھولتے نغمات شامل تھے، جو زبان زدِ عام ہوئے۔
٭محبت میں سارا جہاں جل گیا ہے، زمین جل گئی آسماں جل گیا ہے (مالا)۔
٭جانِ بہار جانِ تمنّا تمہی تو ہو (احمد رشدی)۔
٭میرے ہمدم میرے ساتھی میں تیری دَم ساز ہوں (مالا بیگم)۔ دل دیوانہ (ریلیز 25 اگست 1967ء اس فلم میں شباب کیرانوی اور موسیقار سہیل رعنا کا پہلا اور آخری فنّی اشتراک ہوا اور شباب صاحب نے فلم کے لیے دو نغمات تحریر کیے تھے)۔ الف لیلیٰ (دو نغمات) سنگدل (اک نغمہ) کہتے ہیں سبھی مجھ کو دیوانہ تمہارا (احمد رشدی)۔ میری دوستی میرا پیار (اک نغمہ) آپ نے بخشی ہے جب سے پیار کی جنت ہمیں (مالا)۔ درد (تین نغمات، تیری محفل سے یہ دیوانہ چلا جائے گا) (مہدی حسن)، یہ خط نہیں تمہارا پیغام زندگی ہے(مالا)۔ جایئے ہٹ جایئے یہ دل لگی اچھی نہیں (احمد رشدی/ آئرن پروین)۔ فسانہ دل (ایک نغمہ) درد جب دل میں اُٹھا تو رو دیئے (مالا)۔ انسان اور آدمی (دونغمات) تو جہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا (نورجہاں)۔ تو جہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا (مہدی حسن/نورجہاں)۔ انصاف اور قانون (اک نغمہ: تُو اگر برا نہ مانے تجھے پیار میں سکھا دوں (احمد رشدی)۔
افسانہ زندگی کا (تین نغمات: زندگی کے سفر میں اکیلے تھے ہم آپ جیسا ہمیں مہربان مل گیا (احمد رشدی)۔ کس کو سُنائیں جا کر افسانہ زندگی کا (نورجہاں)۔ بازار (اک نغمہ: تکلف برطرف ہم تو سر بازار ناچیں گے (رونا لیلیٰ)۔ دل ایک آئینہ (شباب صاحب کے 5 نغمات شامل تھے: جانِ من تجھ سے کیا خطاب کروں (مہدی حسن)۔ جانِ چمن کہاں ہے تو مجھ کو تیری تلاش ہے (مہدی حسن)۔ میری آہوں سے محبت کا جہاں جلنے لگا (رجب علی)۔ میری آہوں سے محبت کا جہاں جلنے لگا (رونا لیلیٰ)۔ تیرے چمن کی ہمیشہ بہار زندہ رہے (رونا لیلیٰ)۔ من کی جیت (تین نغمات)
٭ہو میرا بابو چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی (رونا لیلیٰ)۔
٭ سیّاں جی کے نینوں سے پیار چھلکے میں کیا کروں ہائے (رونا لیلیٰ)۔
٭تمہیں کیوں نہ چاہیں تمہیں کیوں نہ پوجیں (ندیم)۔
میں بھی تو انسان ہوں (ایک نغمہ ہے)۔ کیا ملا ظالم تجھے کیوں دل کے ٹکڑے کر دیے (رنگیلا)۔ دامن اور چنگاری (دو نغمات: دیس پرائے جانے والے وعدہ کر کے جانا مجھے خط لکھو گے روزانہ (نورجہاں)۔ یہ وعدہ کیا تھا محبت کریں گے سدا ایک دوجے کے دل میں رہیں گے (مسعود رانا)۔ : ڈھونڈتا ہے دل جسے وہ آشنا تمہی تو ہو (ناہید اختر)۔
شمع محبت (اک گانا: میں چھپا سکوں گا کیسے تیرے پیار کو جہاں سے (مہدی حسن)۔ آواز (1978ء، تین نغمات شباب کیرانوی کے: تو میرے پیار کا گیت ہے تو میرے دل کی آواز ہے (اسے مہدی حسن، ناہید اختر اور اسد امانت علی نے علیحدہ علیحدہ گایا تھا)۔ فلم سہیلی (1978ء، تمام کے تمام آٹھ نغمات شباب صاحب نے لکھے۔ یہ دو نغمات اسد امانت علی نے گائے:
٭آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز۔
٭ آنکھیں غزل ہیں آپ کی اور ہونٹ ہیں گلاب۔ (چھ نغمات ناہید اختر نے گائے)
٭ آپ کی ہنستی ہوئی نظروں کی جانب چاہیے۔
٭آنکھوں سے ہوگئی ہے آنکھوں کی آشنائی
٭تم کیا ملے نصیب ہمارے سنور گئے
٭ اللہ تیری شان یہ اپنوں کی اَدا ہے
٭یہ دل ہے تمہارا ہمارا نہیں ہے
٭ بے وفا دیکھ چکے ہم تو محبت تیری)
دو راستے (1979ء، ایک دوگانا:سامنے بیٹھ کے یوں دل کو چُراتے کیوں ہو (مہدی حسن/ناہید اختر)۔ دامن (1980ء، اک گانا: ہم نے دیکھے زمانے میں لاکھوں حسین (مہدی حسن)۔ ساس میری سہیلی (1987ء، ایک گانا شباب صاحب کا: تو نے کیا کیا، کیا نہ کیا، جان وفا میرے لیے (نورجہاں)
شباب کیرانوی کو ہم سے بچھڑے5 نومبر 2020ء کو 38 برس ہو جائیں گے۔ اُن کے کچھ نغمات کی مزید جھلکیاں:
٭ذرا آنا رے، ذرا آنا اور بابو ٹھنڈی سڑک پہ آنا رہے (زبیدہ خانم، ٹھنڈی سڑک)
٭ہم نے تم سے پیار کیا ہے اُلفت کا اقرار کیا ہے (ناہید نیازی/ باتش، فلم عالم آراء)
٭میری برباد دُنیا کا تماشا دیکھتے جانا تماشا دیکھتے جانا (گلبدن ، منیر حسین)
٭لاڈلے میرے لاڈلے چل سپنوں کے دیس میں (ثریا، نسیم بیگم)
٭کیا ادائے دلبری ہے کیا نگاہ ناز ہے (مہتاب، نسیم بیگم/ مالا و کورس)
٭اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا (ماں کے آنسو، آئرن پروین/ خادم حسین)