پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کےکوئٹہ میں پاور شو کے بعد سے صوبائی دارالحکومت میں موسم سرد ہونے کے باوجود سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا ہے ، پاکستان مسلم لیگ (ن) جو گزشتہ عام انتخابات سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام کی وجہ سے اپنی سابقہ پارلیمانی حیثیت برقرار نہ رکھ سکی تھی، اُسے میں کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ سے صرف ایک روز قبل اُس وقت اُسے کافی تقویت ملی تھی جب بلوچستان کے ایک سنیئر سیاستدان اور تجربہ کار پارلیمنٹیرین پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے تھے۔
بلوچستان کی سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ اسمبلی میں 23 ارکان تھے تاہم 2018 کے انتخابات سے قبل اور بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام و مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد کی بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہونے کے بعد بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پوزیشن بڑی حد تک متاثر ہوئی تھی اور 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر صرف سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ خان زہری صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ قومی اسمبلی کے لئے کوئی امیدوار بھی کامیابی حاصل نہ کرسکا تھا جو یہ یقینی طور پر مسلم لیگ (ن) کے لئے بلوچستان میں ایک بری صورتحال تھی ، ایسے میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل کی پارٹی میں شمولیت مسلم لیگ (ن) کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔
مگر کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ کے بعد مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے، آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) بلوچستان کا مشاورتی اجلاس 7نومبر کو کوئٹہ میں جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی رہائشگاہ پر طلب کیا گیا ہے۔ ایسے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا موقف سامنے آیا ہے کہ25اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے تمام ڈویژنل اور ضلعی صدور و جنرل سیکرٹریز اور پارٹی کے کارکنوں نے بھر پور کوشش کی اور جلسے کو کامیاب بنایا تاہم جلسے میں قائدین کی شرکت نہ کرنے کے حوالے سے اہم فیصلے پر مرکزی قیادت کی جانب سے صوبائی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جبکہ جلسے میں وڈیو لنک کے ذریعے جو بیانیہ پیش کیاگیا اس پر بھی پارٹی قیادت کو تحفظات سے آگاہ کیا گیا مگر مرکزی قیادت کی جانب سے کسی قسم کا جواب نہیں ملاجس کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرنے کے لئے پارٹی کے تمام ڈویڑنل، ضلعی عہدیداروں کو مشترکہ اجلاس ہفتہ 7نومبر کو کوئٹہ میں جنرل (ر) عبدالقادربلوچ کی رہائشگاہ پر طلب کرلیا گیا ہے۔
بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) میں حالیہ بحران کی ابتدائی طور پر مختلف وجوہات سامنے آرہی ہیں جن میں پہلے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق صوبائی صدر و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ خان زہری جو دبئی سے کوئٹہ پہنچے تھےان کو کوئٹہ میں موجود ہونے کے باوجود پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے کوئٹہ کے جلسہ میں پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے مدعو نہ کرنے پر پارٹی کے صوبائی صدر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے پارٹی قیادت سے ناراضی کا اظہار کیا جبکہ دوسری جانب ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ پی ڈی ایم کے جلسوں میں پارٹی قیادت کے بیانیہ سے متفق نہیں ہیں۔
اس دوران مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا نواب ثنا اللہ خان زہری کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے کوئٹہ کے جلسہ میں مدعو نہ کرنے کے حوالےسے موقف سامنے آیا کہ سردار اختر مینگل اور نواب ثنا اللہ زہری کے درمیان تنازعہ ہے اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ نواب ثنا اللہ زہری جلسے میں شریک ہوں اور اگر جنرل عبدالقادر بلوچ استعفیٰ دینا چاہیں تو ان کی مرضی ہے۔اسی اثنا میں پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹی و سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی جمال شاہ کاکڑ کا موقف بھی میڈیا میں آیا ہے جس میں انہوں نےکہا ہے کہ نواب ثناء اللہ زہری پارٹی کے صوبائی صدر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی خصوصی دعوت پر جلسے میں شرکت کرنے کے لئے کوئٹہ آئے تھے نواب ثناء اللہ زہری چونکہ ایک اہم قبائلی سربراہ بھی ہیں انہیں جلسہ میں شرکت سے روکنے پرجنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے ناراضی کا اظہار کیا اور نواب ثناء اللہ زہری کی عدم شرکت ہی کی بناء پر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ بھی جلسے میں شریک نہیں ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا خیال تھا کہ پی ڈی ایم میں مسلم لیگ(ن) کی وجہ سے کسی بھی قسم کی دراڑ نہیں پڑنی چاہیے جس پرمرکزی قیادت نے نواب ثناء اللہ زہری کو جلسے میں شرکت کے لئے مدعو کرنے سے گریز کیا جبکہ ان کا ن یہ بھی کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے جتنے بھی اجلاس اور سرگرمیاں ہوئیں ان میں جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ پیش پیش رہے ہیں انکے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے میاں نواز شریف کے بیانیے پر اعتراض یا تحفظات کا اظہار کیا ہو کوئٹہ کے جلسے سے قبل مریم نواز شریف کی آمد سے لیکر انہیں جلسہ گاہ پہنچانے اور اسٹیڈیم سے ایئر پورٹ جانے تک ساتھ رہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے رہنمااستعفیٰ دینے جیسا کوئی بھی فیصلہ کرتے ہیں تو اس سے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کافی حد تک متاثر ہوسکتی ہے ۔