ملک میں سیاسی میدان میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور ایک طوفان برپا ہے۔ مہنگائی میں ڈوبے ہوئے عوام کو توقع تھی کہ گیارہ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم انکے دکھوں کا مداوہ کرے گا اور ان کی تحریک سے غریبوں کی مشکلات میں کمی ہوگی مگر پی ڈی ایم میں شامل بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اور بعض دوسری پارٹیوں نے مبینہ فوج اور ریاست کے خلاف بیانات دیکر اس تحریک کا رخ ہی موڑ دیا۔ تاہم دوسری طرف پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی نے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اچھے رویےکا مظاہرہ کیا۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر آصف زرداری نے اچھا کارڈ کھیلا اور نواز شریف کے بیانیے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا اور کراچی کے جلسے میں تمام تر پریشر کے باوجود میاں نواز شریف کو کراچی میں تقریر نہ کرنے دی۔
پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی‘ سینٹ اور سندھ اسمبلی سے مستعفی ہونے سے بھی گریز کیا۔ بلاول بھٹو نے بھی فوج کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا بلکہ حکومت کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور کسی سیاسی جماعت کا حکومت پر تنقید کرنا جمہوری حق ہے۔ آصف علی زرداری نے اپنے‘ اپنی بہن اور پارٹی کے دیگر لیڈروں کے خلاف کرپشن کیسز کے باوجود اپنا غصہ فوج اور ریاست کے خلاف نہیں نکالا۔ یہ پیپلزپارٹی کی حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لیڈروں نے مختلف ذرائع سے بہت کوشش کی کہ ان کے خلاف کیسز ختم ہوجائیں۔ انہیں اور ان کی بیٹی کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دلائی جائے۔ جب ہر طرف سے مایوسی ہوئی۔
اگر پی ڈی ایم والوں کو کوئی بیرونی اشارہ ہے تو پاکستان کے موجودہ حالات میں چاہئے کوئی اسلامی ملک ہو امریکہ ہو یا برطانیہ‘ اس وقت پاکستان پر کوئی پریشر نہیں ڈال سکتے نہ پاکستان میں گڑ بڑ کرانے کی کوئی کوشش کامیاب ہوگی۔ ہماری اطلاع کے مطابق کچھ قوتیں پاکستان کے چین‘ روس‘ ترکی‘ ایران کے ساتھ قربت اور سی پیک کی وجہ سے انتقام لینے کی کوشش کررہی ہیں مگر کامیابی ممکن نہیں ہوگی۔ پاکستان اور چین بہت قریب آچکے ہیں۔ پاکستان‘ چین‘ روس ‘ ترکی‘ ایران اور کچھ دیگر ممالک ایک بلاک بننے جارہے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے بڑے صبروتحمل سے سب کچھ برداشت کیا ۔ اب ٹھوس اطلاعات ان تک پہنچ گئی ہیں کہ کونسی قوتیں یہ کچھ کروارہی ہیں اور بہت جلد شکنجہ کساجارہا ہے اور بہت سے لوگ اس شکنجے میں ہونگے۔
سردار ایاز صادق کے پارلیمنٹ میں بیان کے بعد لاہور میں انکے خلاف بینرز لگ گئے جس سے مسلم لیگ ن کے کچھ لیڈر پریشر میں آگئے۔ سردار ایاز صادق نے اپنے بیان کی ایک طرف وضاحت کی اور کہا کہ پوری پاکستانی قوم بھارت کے خلاف متحد ہے مگر اس وضاحت کیساتھ انہوں نےاپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے دوبارہ یہ کہہ دیا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔سردار ایاز صادق نے اپنے خلاف بینرز ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا اور ساتھ دھمکی بھی دیدی کہ میرے پاس اور بھی راز ہیں کیونکہ میں بحیثیت اسپیکر اجلاسوں میں شریک رہاہوں۔اس کا مطلب ہے مسلم لیگ ن والوں کو صرف سیاست کی فکر ہے ریاست کی نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی مفادات اور ملکی سالمیت کی خاطر تمام سیاسی جماعتوںکو قومی ڈائیلاگ کے زریعے سیاسی افراتفری کو ختم کرناہوگا، ملک کی سالمیت اور دفاع کو ہی سب سے بڑھ کر اہمیت دینا ہوگی۔ گزشتہ کافی عرصے سے اسلام دشمن قوتیں اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں ناموسِ رسالتؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے خاکے شائع کر رہی ہیں۔
یہ اسلام دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیاجائے اور وہ شدید ردعمل کا مظاہرہ کریں اور پھر ہم انہیں دہشت گرد قراردیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فرانس کے صدر اور حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد میں مظاہرین فرانس کے سفارتخانے کے باہر جانا چاہتے تھے مگر پولیس نے روکے رکھا۔
وزیراعظم عمران خان نے حضورؐ کی شان میں گستاخی کے خلاف شدید ردعمل کااظہار کیا اور مسلمان ملکوں کے سربراہوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے نبیؐ کی عزت و وقار کے لئے مؤثر آواز اٹھائیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد بھی منظور کی اور ان واقعات کی شدید مذمت کی۔ دفترخارجہ میں فرانس کے سفیر کو طلب کیا گیا اور اپنااحتجاج ریکارڈ کرایا۔ پاکستان میں یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ فرانس سے پاکستانی سفیر کو واپس بلایاجائے۔
وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات شروع کردئیے ہیں۔ کابینہ کے حالیہ اجلاس میں بہت سے وزراء بیوروکریسی کے عدم تعاون پر پھٹ پڑے اور وزیراعظم سے کہا کہ بیوروکریسی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور جو بیوروکریٹ بالخصوص وہ انتظامی افسران جو اندرون خانہ مسلم لیگ ن سے تعاون جاری رکھے ہوئیے ہیں‘ انہیں غیر اہم عہدوں پر لگایاجائے یا فارغ کیاجائے۔ عمران حکومت کا یہ المیہ ہے کہ جو بیوروکریٹ نواز شریف دور کے پردردہ تھے‘ انہوں نے اس حکومت میں بھی لابیوں کے زریعے راستے نکال لئے ہیں اور اہم عہدوں پر فائز ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو اسکانوٹس لینا چاہئے۔
ہم کئی مرتبہ اپنی تحریروں میں آگاہ کرچکے ہیں کہ لوگ مہنگائی سے عاجز آچکے ہیں۔ تاجر جان بوجھ کر اشیاء کی قلت پیدا کرتے ہیں اور پھر بازار میں اپنی قیمتوں سے اشیائے خورونوش فروخت کرتے ہیں۔ چینی‘ آٹے‘ گھی‘ دالوں کی قیمتیں کم نہیں ہوئیں۔ عوام کو فی الحال کسی سیاسی تحریک سے کوئی غرض نہیں مگر عوام میں لاوہ پک رہا ہے جو کسی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اب عوام قطعاً اس بات پر توجہ نہیں دے رہے کہ یہ مہنگائی ماضی کی حکومتوں کی لوٹ مار کی وجہ سے ہے۔
اب موجودہ حکومت کو سوا دو سال ہوگئے ہیں۔ چینی وافر مقدار میں امپورٹ بھی کی گئی۔پھر قیمتیں کم نہیں ہوئیں۔ شوگر ملیں زیادہ تر مسلم لیگیوں کی ہیں اور کچھ آپکے اپنے لوگوں کی ہیں۔ پھر کارروائی کیوں نہیں ۔ دوسرے بہت اداروں سے ہزاروں لوگوں کو نکال دیا گیا ہے۔ وہ بھی لوگ اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں میں اکٹھے ہورہے ہیں۔ ایسے موقع پر اداروں سے وسیع پیمانے پر چھانٹیاں حکومت کو ناکام بنانے کی سازش ہوسکتی ہے۔ پنجاب حکومت کی طرح وفاقی سطح پر بھی بیروزگار نوجوانوں کے لئے قرضہ سکیم فوری طور پر شروع کی جائے۔ اس طرح نوجوانوں کی کثیر تعداد آپکی سپورٹر ہوسکتی ہے۔