اصلاح الدین
پچھلے ہفتے ہاکی کے میدان سے تین اہم شخصیات کے انتقال کی خبر سنے خاصا افسردہ کردیا، پہلے سابق کپتان حنیف خان کے بھائی عظیم خان جسے پیار سے سپو کہتے تھے، دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے، پھر ہمارے کپتان رشید جونیئر اور اس کے بعد پی ایچ ایف کیمپ آفس کراچی کے منیجر ہیومن ریسورسز سید شجاعت نقوی دل کا دورہ پڑ نے سے انتقال کر گئے،ان کے انتقال سے ہاکی برادری اور ہاکی کے حلقے خاصے دکھ اور صدمے میں ہیں، قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان عبد الرشید جونیئر79 سال کی عمر میں اس دنیا کو چھوڑ گئے،عبدالرشید جونیئر اپنے دور کے بہترین سینٹر فاروڈ رہے ہیں۔
وہ 1968اولمپک میں گولڈ, 1972 اولمپک میں سلور اور 1976 اولمپک میں برانز جتنے والی قومی ٹیم کا حصہ رہے،جبکہ 1968 اولمپک اور 1972 اولمپک میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والے کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا،1971 کے ہاکی ورلڈ کپ میں بھی فاتح پاکستان ٹیم کی نمائندگی کی. ہاکی سے ریٹائرمنٹ کے وقت سب سے زیادہ 96 اسکور کرنے والے پاکستانی کھلاڑی تھے، وہ قومی ہاکی ٹیم کے منیجر، کوچ اور پی ایچ ایف کے چیف سلیکٹر بھی رہے۔ میں ان کے ساتھ دس سال کھیلا1974میں ایشین گیمز تہران کے لئے مجھے ان کے ساتھ نائب کپتان بنایا گیا جبکہ وہ بھی پہلی بار ٹیم کے کپتان مقرر ہوئے تھے۔
اس کے بعد ایف آئی ایچ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر برسلز میں ایشین اور یور پین الیون کے درمیان ہاکی میچ کھیلا گیا ، پورے میچ میں بارش ہوتی رہی اور میچ اسی بارش میں کھیلا گیا جو بغیر گول کے ڈرا ہوگیا، ایشین الیون میں رشید جونیئر، میں اور دیگر چھ پاکستانی کھلاڑی شامل تھے، جبکہ ٹیم میں بھارت کے ساتھ ، ملائیشیا کے دو اور ایران کا ایک کھلاڑی شامل تھا، 1974میں اسی ایشیان الیون نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کی ٹیم کے ساتھ کراچی، لاہور، پنڈی اور پشاور میں چار میچز کھیلے اور چاروں میں کامیابی حاصل کی ، اس سیریز کی دل چسپ اور خاص بات یہ تھی کہ ایشین الیون میں شامل رشید جونیئر،راقم سمیت چھ دوسرے پاکستانی کھلاڑیوں نے پاکستان کے خلاف میچ میں حصہ لیا تھا۔
پھر اسی ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا اور نو میں سے سات میں کامیابی حاصل کی جبکہ دو برابر رہے،اسی ایشین الیون نے کرائسٹ چرچ میں کھیلے گئے 12ملکوں کے ٹور نامنٹ میں گولڈمیڈل جیتا، بطور کپتان میں رشید بھائی کو ہمیشہ پرسکون پایا، وہ کبھی غصہ میں نہیں آئے، ملنسار اور دہیمے لہجھے میں بات چیت ان کا خاصا تھا،کبھی کسی کھلاڑی پر ناراض نہیں ہوتے تھے، غلطی پر اسے سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔
رشید جونیئر نے ہر میچ میں گول اسکور کیا، وہ گیند کو جس انداز سے مخالف کھلاڑیوں کو ڈاج اور چکمہ دے گر گول پوسٹ میں اچھالتے تھے وہ عبور دوسرے کھلاڑیوں کو حاصل نہ تھا،1970کی دہائی میں وہ دنیا کے خطرناک ترین سینٹر فاروڈ میں شمار ہوتے تھے، گول کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے،اسی خوبی کی وجہ سے وہ شارپ شوٹر اورکنگ آف دی ڈی کے نام سے مشہور تھے۔
رشید جونیئر نے 89 بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 96 گول کیے۔ اپنے کریئر کا آغاز جنوری 1968 میں سری لنکا کے خلاف میچ میں رائٹ ان کی حیثیت سے کیا تھا، مگر بریگیڈئر عاطف نے انہیں سینٹر فاروڈ کی پوزیشن پر آزمایا اور ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا،1970کے بنکاک ایشین گیمز فائنل میںروایتی حریف بھارت کے خلاف ان کا فیصلہ کن گول آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہے،اسی سال انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نوازا گیا،رشید کے بڑے بھائی بریگیڈیئر حمیدی بھی ہاکی کے نامور کھلاڑی تھے۔
ان کی کپتانی میں پاکستان نے پہلی بار 1960 میں اولمپک گولڈ میڈل جیتا تھا۔ رشید جونیئر کی کپتانی میں 1976 میں مانٹریال اولمپکس میں پاکستان نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا،رشید جونیئر نے کھلاڑی اور منیجر دونوں حیثیت میں ورلڈ کپ جیتا ہے۔ وہ 1994 میں عالمی کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے منیجر تھے۔ اسی برس ان کی منیجر شپ میں پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی ۔
ٹیم میں ان کے ہم نام ایک اور سنیئر کھلاڑی کے ہونے کی وجہ سے انہیں جونیئر کے نام سے پکارا جانے لگا، مگر انہوں نے اپنے کھیل سے ثابت کردیا کہ وہ نام کے جونیئر ہیں مگر کام میں کئی سنیئر ز سے بھی آگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رشید جونیئر عظیم تھا اور عظیم رہے گا۔