پاکستان واقعی بدل رہا ہے، انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، جن لوگوں پر مقدمات ہیں اور وہ عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں انصاف مل رہا ہے۔ جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن کو ضمانت مبارک ہو، اگلے چند دنوں میں آصف علی زرداری سمیت کئی رہنمائوں کی ضمانتیں ہوں گی۔
جہانگیر ترین کو بھی انصاف ملے گا مگر جو لوگ عدالتوں سے بھاگ جائیں گے، قسمت ان سے روٹھ جائے گی، ویسے بھی اگلے دو تین مہینے عدالتی فیصلوں کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں، یہ فیصلے مستقبل کا تعین کریں گے۔
فی الحال آج مجھے گلگت بلتستان کے الیکشن پہ لکھنا ہے، جہاں کئی دنوں سے سیاسی میلہ لگا ہوا ہے اور پندرہ نومبر اتوار کے دن الیکشن ہیں۔
سرزمینِ گلگت بلتستان اپنے اندر خوبصورتیاں سموئے ہوئے ہے، یہاں کے مناظر دلکش، دلفریب اور حسین ہیں، اسی لئے لوگ یہاں آ کر فرحت محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کے حسن میں کھو جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان کی حالیہ الیکشن مہم کے سلسلے میں قریباً تمام قومی رہنما یہاں آئے، اپنے اپنے جلسے کئے۔ جی بی کے لوگوں کے لئے سیاسی ماحول کو گرمایا، وہاں کے لوگوں نے ان جلسوں میں بڑی بھرپور شرکت کی۔
انہوں نے ’’جئے بھٹو‘‘ کے نعرے بھی لگائے، مریم نواز کے جلسے میں ہوجمالو پر دھمال بھی ڈالی اور تبدیلی والوں کے نعرے بھی لگائے۔
ایم ڈبلیو ایم کے راجہ ناصر عباس بھی اپنے حامی امیدواروں کے حق میں جلسے کرتے رہے۔ کئی وفاقی وزراء نے بھی ڈیرے لگائے رکھے۔ سب نے اپنی اپنی بولیاں بولیں، سب نے فتح کے دعوے کئے، خوب وعدے کئے۔
گلگت بلتستان کے لوگوں نے تمام جلسوں میں بھرپور شرکت کی، وزیراعظم عمران خان بھی وہاں عبوری صوبے کا اعلان کر آئے حالانکہ اسے صوبے کا درجہ پیپلز پارٹی کے دور میں دیا گیا تھا اور سید مہدی شاہ اس کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے، مہدی شاہ نے بہت کام کیا، وہاں کے نوجوانوں کو پچیس ہزار نوکریاں دیں، کئی ترقیاتی کام کروائے، اسی لئے حالیہ الیکشن کی مہم میں بلاول بھٹو نے مہدی شاہ کو ’’بابائے روزگار‘‘ کا خطاب دیا۔
جب مہدی شاہ کی حکومت نے اپنا عہد پورا کیا تو وفاق میں ن لیگ کی حکومت بن چکی تھی۔ ن لیگ کے دور میں الیکشن ہوا، برجیس طاہر امور کشمیر و گلگت بلتستان کے وفاقی وزیر تھے۔
ان کے زیر سایہ الیکشن میں ن لیگ جیت گئی، ن لیگ نے حافظ حفیظ الرحمٰن کو وزیر اعلیٰ بنا دیا، ساتھ ہی انہوں نے میر آف ہنزہ غضنفر علی خان کو گورنر بنا دیا۔
گورنر کی اہلیہ عتیقہ غضنفر رانی آف ہنزہ سماجی و سیاسی خدمات کے حوالے سے پورے گلگت بلتستان میں مشہور ہیں مگر اس سب کے باوجود ن لیگی وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن وہ سب کچھ نہ کر سکے جو گلگت بلتستان کے پہلے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ نے کیا تھا۔
اب وہاں جب الیکشن ہو رہا ہے تو اس وقت وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، علی امین گنڈا پور امور کشمیر و گلگت بلتستان کے وفاقی وزیر ہیں۔ ان کی مدد کے لئے اور وفاقی وزراء بھی پہنچے ہوئے ہیں۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کے سامنے اس وقت تین بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں، وہ پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ دیکھ چکے ہیں، ن لیگ کی تو وہاں ابھی حکومت ختم ہوئی ہے، پی ٹی آئی والے وعدے کر رہے ہیں۔
دیکھئے ان کے وعدوں میں کتنا اثر ہوتا ہے مگر یاد رہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، ان کی زبانوں میں تاثیر نہیں ہے۔ جی بی کے عوام میں سیاسی ولولہ اور جذبہ بہت ہے، وہاں کے جلسے واقعی سماں باندھ دیتے ہیں، پاکستان میں ایسے جلسے ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہوا کرتے تھے، خاص طور پر بھٹو کے عہد میں تو جلسوں کا رنگ ہی اور ہوتا تھا۔
جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں بتا چکا ہوں کہ تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے گلگت بلتستان کا رخ کیا مگر بلاول بھٹو زرداری تو پچھلے بیس دنوں سے یہاں سے نکلے ہی نہیں، گلگت بلتستان کے پہلے عبوری گورنر قمر زمان کائرہ سمیت پارٹی کے کئی رہنما اپنے چیئرمین کے ساتھ ساتھ ہیں۔
بقول نذیر ڈھوکی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو ہر حلقے میں گئے ہیں۔ اس کے اثرات یقینی طور پر نظر آئیں گے۔
مریم نواز نے بھی وہاں بڑے شاندار جلسے کئے ہیں مگر ان کے وزیر اعلیٰ کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے پھر ان کی پارٹی کے کئی اراکین بھاگ گئے ہیں۔
اگرچہ وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر پی ٹی آئی ٹکٹوں کی تقسیم میں ایسی غلطیاں کر چکی ہے جن کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔
ایم ڈبلیو ایم سے اتحاد کی وجہ سے پی ٹی آئی کی دو سیٹیں بڑھ جائیں گی مگر گلگت بلتستان کا الیکشن مجموعی طور پر پیپلز پارٹی جیتے گی۔
خواتین و حضرات! اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو گلگت بلتستان سے پیپلز پارٹی کیسے جیت جائے گی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا بڑا آسان ہے۔
پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے گلگت بلتستان میں ٹکٹوں کی تقسیم درست کی۔
پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس کے وزیر اعلیٰ نے بھرپور کارکردگی دکھائی، لوگوں کو روزگار دیا، پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو جلسوں میں اپنی کارکردگی بیان کر رہی ہے، باقی دو جماعتیں صرف الزامات لگا رہی ہیں۔
آئندہ کے لئے کوئی بہتر مستقبل کا نقشہ بھی پیش نہیں کر رہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے سامنے بھرپور پروگرام رکھا ہے پھر بلاول بھٹو کا طویل قیام لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا ہے۔
جی بی میں محبت کی جو فصل بھٹو صاحب نے کاشت کی تھی، بلاول نے ان پھولوں میں رنگ بھر دیا ہے، بلاول وہاں کے ہر حلقے میں لوگوں کے پاس گیا، یہ کام کوئی اور نہیں کر سکا۔
لہٰذا میرے خیال میں پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے الیکشن میں پہلی پوزیشن پر ہو گی، بڑی تعداد میں آزاد بھی جیتیں گے، پانچ سے چھ سیٹیں پی ٹی آئی کو بھی مل جائیں گی، ن لیگ شاید ایک یا دو سیٹیں نکال سکے، بلاول گلگت بلتستان کا میدان جیت چکا ہے، بس اب اعلان باقی ہے باقیوں کے لئے راشد محمودؔ کا شعر ہے کہ؎
راشدؔ تمام عمر رہے خواب میں مگر
جو جاگتے تو خواب کی تعبیر دیکھتے