• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوبائیڈن کی جیت سے مختلف ممالک پر کیا اثر پڑے گا؟

ڈیموکریٹ اُمیدوار جو بائیڈن امریکا کے 46ویں صدر منتخب ہوگئے، ریاست پنسلوانیا میں ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد جو بائیڈن کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 273 ہوگئیتھی جبکہ اُن کے حریف ری پبلکن اُمیدوارصدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 214 تھی۔

امریکی صدارتی انتخابات کے فاتح جوبائیڈن کی جیت سے دنیا کے مختلف ممالک میں کیا اثر پڑے گا، آئیے دیکھتے ہیں:

بھارت

نو منتخب امریکی نائب صدر کملا ہیریس کے آباؤ اجداد کا تعلق بھارت سے ہونے پر وہاں کے عوام فخر محسوس کر رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے مقابلے میں نریندر مودی کو جو بائیڈن سے زیادہ سردمہری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بھارت ایک طویل عرصے سے امریکا کا اہم ساتھی رہا ہے اور بائیڈن کی صدارت کے دوران مجموعی طور پر ان تعلقات میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔تاہم جو بائیڈن اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مابین ذاتی تعلقات میں کچھ مشکلیں آ سکتیں ہیں۔ ٹرمپ، مودی کی متنازعہ اندورنی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔

جو بائیڈن بغیر لگی لپٹی بات کرنے کے عادی ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کی ویب سائٹ پر کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) اور شہریت کے متنازعہ قانون (سی اے اے) پر تنقید کی گئی ہے۔ یہ وہ دو قوانین ہیں جنھوں نے انڈیا میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا۔

نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس جو کہ آدھی بھارتی ہیںانہوں نے بھی ہندو قوم پرست حکومت کی کچھ پالیسیوں کے خلاف اظہار خیال کیا ہے لیکن اُن کے بھارت سے تعلق پر ملک کے بیشتر حصوں میں بڑے پیمانے پر جشن بھی منایا گیا۔

چین

میڈیا رپورٹس کے مطابق جو بائیڈن کی فتح چینیوں کے لیے ایک اور چیلنج پیش کر رہی ہے۔

شاید آپ کو لگے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہار سے بیجنگ کو خوشی ہوگی۔ انہوں نے چین کو تجارتی طور پر نشانہ بنایا، چین پر کئی طرح کی پابندیاں لگائیں اور کورونا وائرس کے لیے بھی انہیں ذمہ دار ٹھہرایا۔

لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اندر سے چینی قیادت اب مایوسی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ٹرمپ کو پسند کرتے تھے، بلکہ اس لیے کہ وائٹ ​​ہاؤس میں ان کے مزید چار سالوں نے امریکہ میں مزید خرابی کا امکان ختم کر دیا ہے۔

ملک میں تفرقے بازی، عالمی دنیا میں تنہائی، ٹرمپ بیجنگ کے لیے ایک ایسے شخص تھے جو امریکی اثر و رسوخ اور طاقت میں کمی لانے کا سبب بن سکتا ہے۔

بائیڈن کی فتح جمہوری کنٹرول کے بغیر چلائے جانے والے چینی نظام کے لیے ایک اور چیلنج پیش کرتی ہے۔ اقتدار کی منتقلی اس بات کا ثبوت ہو گا کہ امریکییوں کے اقدار آج بھی برقرار ہیں۔

ایران

میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیڈن کی فتح تہران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لا سکتی ہے۔

امریکی انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ دوبارہ منتخب ہو گئے تو انھیں سب سے پہلی ٹیلیفون کال ایران کے رہنماؤں کی طرف سے آئے گی جس میں وہ بات چیت کرنے پر آمادگی کا اظہار کریں گے۔

لیکن اگر ٹرمپ جیت جاتے تو جس فون کال کے وہ خواب دیکھ رہے تھے، انہیںکبھی نہیں آنے والی تھی۔ ایران کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات کرنا ناممکن ہوتا۔ یہ ایک بہت ذلت آمیز منظر ہوتا۔

صدر ٹرمپ کے زیرِ صدارت امریکی پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی نے ایران کو معاشی تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ٹرمپ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ انہوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی دوست جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا۔ ان کے قتل کا بدلہ لینا سخت گیروں کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

جو بائیڈن کا انتخاب ایران کے لیے امریکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے عمل کو آسان بنا سکتا ہے۔ نو منتخب صدر بائیڈن کے ماضی کے واقعات نہیں جڑے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ سفارت کاری کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر واپس جانا چاہتے ہیں۔

لیکن ایران کے سخت گیر رہنما آسانی سے میز پر نہیں آئیں گے۔ امریکا میں 3 نومبر کو جب انتخابات ہو رہے تھے، سپریم لیڈر نے دعویٰ کیا کہ انتخابات کا تہران کی پالیسیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ ’ایران نے ایک سمجھدار اور محتاط اندازے والی پالیسی پر عمل کیا ہے جو واشنگٹن میں شخصیات کی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوسکتی۔‘

خاموشی سے امریکی انتخابات کو اپنے غیرقانونی سیٹلائٹ ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھتے ہوئے لاکھوں ایرانی شاید مختلف طرح سے سوچ رہے ہوں، ان کے مستقبل کا انحصار نتائج پر منحصر ہے اور اُمید ہے کہ بائیڈن کی فتح سے پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔

اسرائیل

میڈیا رپورٹس کے مطابق امکان یہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا تسلسل جاری رہے گا۔

اپنے دور میں صدر ٹرمپ نے تہران میں اپنے مخالفین کو الگ تھلگ کرتے ہوئے، امریکا کے روایتی علاقائی اتحادیوں کو استحکام پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔

نومنتخب صدر بائیڈن مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسی کو اسی حالت میں بحال کرنے کی کوشش کریں گے جس میں انہوں نے براک اوباما کے ماتحت نائب صدر کی حیثیت سے چھوڑا تھا، وہ ٹرمپ کی ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ والی کیمپین کے اثرات کو کم کرنے اور اس کے تحت دو سال قبل ترک کیے گئے 2015 والے جوہری معاہدے پر واپس جانا چاہیں گے۔

اسرائیل اور خلیجی ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس امکان سے خوف زدہ ہیں۔ ایک اسرائیلی وزیر نے بائیڈن کی ممکنہ جیت کے جواب میں کہا کہ اس پالیسی کے خاتمے کا نتیجہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ’پُرتشدد تصادم‘ کی صورت میں نکلے گا کیونکہ ہم ایکشن لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

بائیڈن کی جیت اسرائیلی فلسطین تنازع کے بارے میں امریکی رویہ کو ڈرامائی انداز میں بدل سکتی ہے۔ ٹرمپ کے پلان کو اسرائیل کی بھاری حمایت کرنے اور مقبوضہ مغربی کنارے کے حصے کو ملانے کا موقع فراہم کرنے کے طور پر دیکھا گیا۔ اسرائیل اور متعدد عرب ریاستوں کے مابین تعلقات قائم کرنے والے تاریخی معاہدوں میں بھی امریکا نے مدد کی۔

بائیڈن کے زیرِ صدارت علاقائی صورتحال کو ’معمول پر لانے‘ کی مہم جاری رکھے جانے کا امکان ہے، لیکن وہ خلیج کو متنازعہ امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں کمی لانے کی کوشش کرسکتے ہیں اور امکان ہے کہ اسرائیل مزید مراعات حاصل کرے گا لیکن اب مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کو ملانے کا کوئی موقع نظر نہیں آ رہا ہے اور بائیڈن کو بھی اسرائیلیوں کی جانب سے مزید آباد کاری پر اعتراض ہوگا۔

لیکن جس یو ٹرن کا مطالبہ اس ہفتے ’فلسطین کے ایک عہدے دار‘ نے کیا، وہ پورا نہیں ہو سکے گا۔ اب ’دو ریاستوں کے قیام‘ سے متعلق روایتی مذاکرات ہوں گے، لیکن اسرائیل فلسطین کے امن عمل میں زیادہ پیشرفت کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔

برطانیہ

میڈیا رپورٹس کے مطابق جو بائیڈن کے دورِ صدارت میں امریکا اور برطانیہ کے درمیان’خصوصی تعلقات‘ کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

دونوں ممالک کو حلیف کی حیثیت سے نہیں دیکھا جائے گا: جو بائیڈن ایک تجربہ کار ڈیموکریٹ ہیں جبکہ بورس جانسن بریگزیٹ والے ایک شعلہ زبان وزیرِ اعظم ہیں۔

مستقبل کے ان کے تعلقات کیسے چل سکتے ہیں، یہ دیکھنے کے لیے ماضی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر 2016 کا وہ آخری سال جب ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کامیابی حاصل کی تھی اور برطانیہ نے یورپی یونین چھوڑنے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ اس وقت جو بائیڈن اور ان کے باس، براک اوباما نے کھلے عام بتا دیا تھا کہ بریگزیٹ کے بارے میں وہ کسی اور طرح کے نتائج کو ترجیح دیں گے۔

بریگزیٹ کے سلسلے میں برطانوی حکومت کی حالیہ تدابیر، امریکا میں اہم ڈیموکریٹس، نو منتخب صدر اور آئرش لابی کو کچھ خاص پسند نہیں آئیں۔ بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر وہ منتخب ہوئے تو بریگزیٹ کی وجہ سے شمالی آئر لینڈ کے امن کو خراب نہیں ہونے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں امریکا اور برطانیہ کے درمیان کوئی بھی معاہدہ صرف اس صورت میں ممکن ہو گا اگر اس میں گڈ فرائیڈے والے معاہدے کا احترام شامل ہو۔

یاد ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بورس جانسن کو ’برطانیہ کا ٹرمپ‘ پکارا تھا؟ خیر بائیڈن نے بھی بھی بظاہر اس سے اتفاق کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیر اعظم کو ٹرمپ کے ’جسمانی اور جذباتی کلون‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔ لہذا یہ ممکن ہے کہ شروع میں جو بائیڈن لندن کے بجائے برسلز، برلن یا پیرس کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہاں ہوں۔ دونوں ممالک کے درمیان ’خاص رشتے‘ کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ کرسکتا ہے۔

تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں افراد کسی مسئلے پر اکھٹے ہو جائیں۔ خیر سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے علاوہ دونوں ممالک کے دیرینہ اور گہرے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔

تازہ ترین