• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کورونا کا دوسرا حملہ: پختونخوا میں مریضوں کی تعداد 40 ہزار سے بڑھ گئی

خیبرپختونخوا میں مہنگائی اوربے روزگاری سے پریشان عوام پر کورونا وبا کی دوسری لہرکے وار بھی شروع ہوچکے ہیںجو عوام کے پرپشانیوں اور مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خیبرپختومیں بھی کورونا متاثرین کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہاہے، صوبہ میں کورونا کے متاثرین کی مجموعی تعداد 40285 تک پہنچ گئی ہے ۔

تاہم ایسے میںوزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پورے صوبے کی طرح ضلع سوات میں عوام کے لئے سالانہ دس لاکھ روپے تک کے مفت علاج کے لئے صحت سہولت کارڈ کے اجرا کا باقاعدہ اعلان گویا مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے غریب عوام کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں صوبائی حکومت کے اس منصوبے کےتحت خیبرپختونخوا کا ڈومیسائل اور قومی شناختی کارڈ رکھنے والا ہرشخص چاہے وہ ملک کے کسی صوبے یا شہر میں بھی رہائش پذیرہو ، صحت انصاف کاروڈ کے زریعے سالانہ دس لاکھ روپے تک مفت علاج کراسکے گا ،سکیم کے تحت پہلے مرحلے میں صوبے کے اضلاع دیر، ملاکنڈ ، سوات ، اپر اور لوئر چترال میں اس کاآغاز ہو چکا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں ایبٹ آباد ، مانسہرہ، بٹگرام ، تورغر او رکوہستان میں رواں تک تو پہلے دی جائے گی جبکہ تیسرے مرحلے میں سکیم کوہری پور ، صوابی ، مردان ، بونیر ، نوشہرہ ، چارسدہ اور پشاور تک توسیع دی جائے گی سکیم پر سالانہ 18 سے 20 ارب روپے خرچ ہوں گے،وزیراعظم عمران خان نے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپوزیشن کے خلاف سخت لب لہجہ استعمال کرتے ہوئے الزام لگا کہ نوازشریف اپنا پیسہ بچانےکیلئے فوج میں بغاوت کی کوشش کررہا ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ سارے ڈاکوؤں پھر سے اکٹھے ہوگئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم پیسہ واپس نہیں کریں گے، صحت انصاف کارڈ کا شاندار منصوبہ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کہناتھا کہ سکیم کے تحت ہر خاندان دس لاکھ تک کسی بھی ہسپتال سے علاج کراسکے گااور اسے مہنگی علاج کے لئے اپنا گھریا جائیداد فروخت کرنا پڑے گا نہ ہی کسی سے قرض لینا پڑے گا،جہاں تک پورے صوبے کے عوام کے لئے صحت انصاف کارڈ کا اجراہے یقیناًیہ ایک اچھا اور انقلابی اقدام ہے مگرابھی بھی اس میں بعض پیجیدگیاں موجود ہیں جسے دور کرنا ضروری ہے ،اس کارڈ کے زریئے ان میریضوں کو مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی جو کہ ہسپتال میں داخل ہونگے اور او پی ڈی میں اس کارڈ کے زریئے علاج ممکن نہیں ہوگا جبکہ ہمارے اور غریب شہری روزانہ ہزاروں کے حساب سے اوپی ڈی آتے ہیں جس کے لئے ایک ایسے آگاہی مہم کی ضرورت کہ ایک عا م شہریوں کو معلوم ہوسکے وہ ان کارڈ کے زرئیے کن کن بیماریوں کا علاج کس طریقے سے کراسکتے ہیں ورنہ اس ہسپتالوں میں آئے غلط فہمیاں جنم لیں گیا اس کے لئے ضروری ہے کہ جن ہسپتالوں کو صحت انصاف کارڈ کی لسٹ پر شامل ہرہسپتال میں بڑے سائن بورڈز لگانے چائیے جس پر یہ واضح طورپر درج ہو کہ صحت انصاف کارڈ کے تحت شہریوں کو کن کن بیماریوں کے علاج کے اجازت ہے تاکہ نہ ہسپتال کے ڈاکٹر ز اور شہریوں دونوں پر یہ بات واضح ہو تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ اس کا رڈ کا اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرسکے۔

جہاں تک اپوزیشن پر وزیراعظم کی تنقید ہے تو یقینا ًوزیر اعظم کو انتخابات سے قبل ڈی چوک کے دھرنےاور دیگر اجتمامات میں اپنےوعدے ضروری یاد ہونگے جن کا یہاں ایک ایک کرکے ذکر کرنا شائدممکن ہو مگر وزیراعظم ہربار دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہوں پر قوم کے اربوں روپے لوٹنے کا الزام لگاتے رہے اور اب بھی وہی الزام لگارہے ہیں مگر قوم کا وزیر اعظم سے ایک ہی سوال ہے کہ بقول ان کے ان قومی لیڈروں سے اب کتنے ارب ڈالر وصول کئے گئےہیں اور اس کا ملک کے غریب عوام کی زندگی پر کیااثر پڑا ہے کیونکہ تمام وعدون کے برعکس پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد تمام بوجھ اسی طرح غریب عوام پر ہی ڈال دیا ہے۔

قومی جانتی ہے کہ ان لوٹیروں کے کے دور میں بجلی ،آٹا اور چینی جیسی بنیادی چیزوںکی کیا قیمت تھی اور آج بھی تحریک انصاف تو عوام کو آٹااور چینی تک اس قیمت پر نہ دی سکی جس پر سابق حکمران دیتے آرہے ہیں ،وزیر اعظم صاحب اب بھی وقت ہے زمینی حقائق پر نظر ڈالے اپنے وعدوں کو یاد کریں کسی کو ڈاکواور کسی کو کرپٹ کہکر عوام سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کا بیانیہ مذید نہیں چلے گا عوام اب بیدار ہوچکے ہیں،تحریک انصاف کی جھوٹ اور الزامات کی سیاست کے باعث عوام اب انہیں لوگوں کو پنا مسیحا سمجھ رہے رہے ہیں جسے آپ بار بار ڈاکو قرار دے رہے ہیں،اس لئے اب بھی وقت ہےکہ عوام کےساتھ ساتھ کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں اپوزیشن پر بے الزامات اور سرکاری داروں اور مافیاز کو ریلیف دینے کی بجائے غریب عوام کوریلیف دینے کے لئے ٹھوس اور حقائق پرمبنی اقدامات اٹھائے جائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ آنےوالے انتخابات میں عوام کا ہاتھ او ر موجودہ حکمرانوں کا گریبان ہو ۔

ادھر حکومت اورسیکورٹی اداروں کی جانب سے شدت پسندی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے دعووں کے باوجود صوبے کے بعض علاقوں میں اب بھی بعض کالعدم شدت پسند تنظیموں کی نہ صرف موجودگی کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں بلکہ ان کی طرف سے ان علاقوں میں خواتین پر پابندیوں سے متعلق دھمکی آمیز خطوط بھی جاری کررہے ہیں جو مبینہ طور پر ان علاقوں کی خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذکرنے والے ایسے ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کرے جو اس قسم کی بزدلانا کاروائیو ں کے زرئیے خواتین کو تعلیم سےدور رکھنے کی سازش یا کوشش کررہے ہیں اورانہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چائیے تاکہ آئندہ کسی کو اس قسم کی حرکت کرنے کی جرات نہ ہوسکے ،ماضی قریب بھی تعلیم دشمن عناصر نے صوبے میں ایک درجن سے زائد سکولوں کو بارودی مواد سے تباہ کیا ہے جسے حکومت نے اب بحال کردیا ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین