کورونا کا خوف اور سیاست کی بڑھتی ہوئی کشیدہ فضانے ماحول کو خاصاسنجیدہ بنادیا ہے ،مگر سیاستدان کے نزدیک ابھی بھی اس ساری صورتحال کو ایسے ہلکے پھلکے انداز میں لیا جارہا ہے کہ جیسے یہ کچھ ہے ہی نہیں ،اپوزیشن اور حکومت کی طرف سے جلسوں کے ترکی بہ ترکی جوابات سیاست کے ٹھہرے پانی میں مسلسل پتھر پھینک رہے ہیں اور ہرنئے دن کے ساتھ سیاست کی گرم بازاری اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے ،اس حوالے سے کچھایسی کوششیں بھی جارہی ہیں کہ متحدہ اپوزیشن کے اتحاد میں کوئی دراڑ ڈالی جائے ،ایک کوشش تو اس وقت کی گئی ،جب آئی جی سندھ کا واقعہ سامنے آیا ،جس کے بارے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے فوراًہی یہ بیان جاری کردیاکہ اس کامقصد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں دوریاں پیدا کرنا ہے ،لیکن ہم اس قسم کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
حال ہی میں بلاول بھٹوزرداری کے ایک بیان کو لے کر حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ بلند بانگ دعوے کئے گئے کہ پیپلزپارٹی ،نوازشریف کے بیانیہ سے پیچھے ہٹ گئی ہے ،بلاول بھٹو زرداری کے ایک غیر ملکی چینل کودیئے گئے انٹرویو کو نوازشریف کے بیانیہ کو دھچکا قرار دیتے ہوئے حکومتی حلقوں کی طرف سے اس بات کو مسلسل نمایاں کیا گیا ،جبکہ اس بیان کا دوسرا حصہ حذف کردیا گیا ،جس میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ میاں نوازشریف نے اگرایسی بات کی ہے ،تو یقیناً ان کے پاس اس کے ثبوت بھی ہوں گے ،کیونکہ وہ تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں ،تاہم مسلم لیگ ن نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ بلاول بھٹو زرداری ،میاں نوازشریف کے بیانیہ کے خلاف ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پی ڈی ایم میں کوئی اختلاف پیدا نہیں کیا جاسکتا اور یہ تحریک حکومت کے خاتمہ تک جاری رہے گی۔
ادھر پیپلزپارٹی نے بھی بلاول بھٹوزرداری کے انٹرویو کی وضاحت کرتے ہوئے یہی کہا کہ وہ اختلاف نہیں رکھتے ،بلکہ انہوں نے مثبت انداز میں یہ کہا ہے نوازشریف جو کہہ رہے ہیں ،ان کے پاس اس کا ثبوت بھی ہوگا ،گویا پی ڈی ایم میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں تو جاری ہیں ،مگر اوپر سے لے کر نیچے تک دونوں بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں ایک مثالی ہم آہنگی اور انڈرسٹینڈنگ نظر آتی ہے ،اس کی مثال ان پریس کانفرنسوں اور اجلاسوں سے بھی دی جاسکتی ہے جو ملتان میں بلاول ہاؤس ، گیلانی ہاؤس اور مخدوم جاوید ہاشمی کی رہائش گاہ میں منعقد کی گئیں ،جن میں سید یوسف رضا گیلانی ، مخدوم جاوید ہاشمی سمیت پی ڈی ایم کی جماعتوں کے رہنماؤں اور اراکین اسمبلی نے اس بات کو خارج از امکان قرارد یا کہ بلاول بھٹو زرداری کوئی ایسی بات کرسکتے ہیں ،جس سے پی ڈی ایم کی تحریک کو نقصان پہنچے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک جو مختلف حوالوں سے زور پکڑ رہی ہے اور آئندہ بڑا جلسہ پشاور میں منعقد ہونا ہے ،اس کے بعد یہ تحریک پنجاب کو رخ کرے گی اور 30 نومبر کو ملتان میں ایک بڑے جلسے کے لئے تیاریاں زوروں پر ہیں ،تو گویا تحریک کا ٹیمپوبن رہا ہے اور اس ٹیمپوکو بڑھانے میں خود حکومت نہایت اہم کردار ادا کررہی ہے۔ادھر حکومت کے کچھ بے تدبیر وزیر ایسا انداز تخاطب اختیار کئے ہوئے ہیں ،جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہورہی ہے ،دوسری طرف خاص طور پر مریم نواز کو سیاسی فائدہ پہنچ رہا ہے، مثلاً پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپوری نے مردان کے جلسہ میں مریم نواز کے حوالےسے جو تمسخرانہ گفتگو کی ،اسے عمومی طور پر ناپسندیدہ قراردیا گیا ہے۔
ایسی گفتگو سے مریم نواز کے سیاسی قد کو کم نہیں کیا جاسکتا ،بلکہ اس قسم کی باتیں خاص طور پر حکومتی مخالفین کو فائدہ پہنچاتی ہیں ۔ ادھر مخدوم جاوید ہاشمی نے ملتان میں مسلم لیگ ن کا محاذ سنبھال رکھا ہے اور وہ وزیراعظم کے ایسے بیانات کی کڑی گرفت کرتے ہیں ،اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اپوزیشن کی تحریک سے گھبرائے ہوئے ہیں اور ایسی دھمکیوں پر اترآئے ہیں کہ جو وزیراعظم کے منصب پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کو زیب نہیں دیتیں ،وہ ملتان میں ہونے والے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں ،ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسہ کے لئے مشترکہ کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے ،اگرچہ اس جلسہ کی میزبانی پیپلزپارٹی کے ذمہ ہے ۔
مگر اسے کامیاب بنانے کے لئے پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتیں بھرپور کاوشیں کررہی ہیں ،پیپلزپارٹی کے لئے یہ جلسہ بڑی اہمیت رکھتا ہے ،کیونکہ ملتان میں پچھلے کئی برسوں سے پیپلزپارٹی کوئی ایسا نمایاں جلسہ نہیں کرسکی ،جسے وہ اپنی مقبولیت کا ثبوت بنا کر پیش کرسکے ،اس جلسہ کے ذریعے بلاول بھٹو زرداری کو بھی ایک بڑا پلیٹ فارم میسر آئے گا اور وہ یہاں ایک بڑے جلسہ سے خطاب کریں گے ،یہ مریم نواز کا بھی ملتان میں بڑا جلسہ ہوگا ،ظاہر ہے کہ اس کے لئے پی ڈی ایم میںشامل جماعتیں بھی جنوبی پنجاب بھر سے اپنے حامیوں کو ملتان پہنچنے کا کہیں گی ،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو توقع ہے کہ 30 نومبر کا یہ جلسہ گوجرانوالہ ،کراچی ،کوئٹہ کے جلسوں کا ریکارڈ توڑ دے گا ۔ سوال تو یہ بھی کیا جارہا ہے کہ جہانگیر ترین کے واپس آنے سے کیا۔
جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف پھر فعال ہوگی اورکیا اس موقع پر کہ جب پی ڈی ایم ایک بڑے جلسہ کی تیاری کررہی ہے ،وزیراعظم عمران خان کے اس خطہ میں کسی بڑے جلسہ کا انتظام کیا جائے گا ؟یقیناًوہ ملتان میںجلسہ نہیں کریں گے جیساکہ انہوں نے گوجرانوالہ کی بجائے حافظ آباد میں جلسہ کیا ،لیکن اگر وہ ڈی جی خان یا بہاول پور میں ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،تو پی ڈی ایم کے جلسہ کے اثر کو سیاسی طور پر کم کیا جاسکے گا،مگر ایسا کرنے سے ایک بار پھر یہ تاثر ابھرےگا کہ حکومت اپوزیشن کی تحریک سے خوف زدہ ہےاور اس تاثر کو مٹانے کے لئے اس کی مقبولیت کم ہوچکی ہے،جلسے کررہی ہے ،دیکھنایہ ہے کہ نومبر اور دسمبر کے مہینے سیاسی حوالے سے کیا مناظر دکھاتے ہیں اور پردہ غیب سے کیا کچھ نکلتا ہے ۔