ہر کسی کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اپنی چھت ہو، جس کے لیے وہ زندگی میں انتھک محنت کرتا ہے۔ معقول سرمایہ جمع کرنے کے بعد وہ پائیدار تعمیراتی اصولوں پر بنایا گیا مکان یا اپارٹمنٹ خریدنے کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ غیر معیاری مٹیریل سے بنی عمارتیں مختلف وجوہات کی بنا پر اکثر ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔
عمارتوں کی تعمیر میں بنیادوں سے لےکر آخری اینٹ کی چنائی تک پائیداری و مضبوطی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مغلیہ اور انگریز دور حکومت کی عمارتیں آج بھی اپنی استقامت اور مضبوطی کے حوالے سے معیار مانی جاتی ہیں کیونکہ ان کو پائیدار تعمیراتی اصول کے تحت بنایا گیا تھا اور ان کی آرائش و زیبائش کے ساتھ مضبوطی و پائیداری کو اولین ترجیح دی گئی تھی۔ آئیے عمارتوں کی مستحکم یا پائیدار تعمیرات میں جن خاص باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے ان کا ذکر کرتے ہیں۔
بنیاد کی مضبوطی
مکان کی تعمیر میں سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیاجاتا ہے کہ وہ کس قسم کی زمین پر تعمیر ہوگا۔ اگر زمین بھربھری ہے تو مسالہ مضبوط رکھا جاتا ہے اور بنیاد ڈالنے سے پہلے کم از کم بیس فٹ گہرائی تک گڑھا کھودا جاتا ہے۔ اس گڑھے کو مضبوط اور پائیدار پتھروں سے بھرا جاتا ہے تاکہ اس کے نیچے کی زمین کا بھربھراپن تعمیراتی ڈھانچے کو متاثر نہ کرے۔ اگر آپ کثیر المنزلہ مکان بنانے کے خواہاں ہیں تو مضبوط بنیا د اسے سہارنے میں ممد و معاون ہونی چاہیے۔ اس کے بعد بنیاد ڈالنے کا مرحلہ آتا ہے، جس میں بٹومن کی زیادہ مقدار اور سریے کا استعمال اسٹرکچر کو پائیدار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جب ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے تو دیواریں کھڑی کرتے وقت بلاکس اور اینٹوں کی ہموار چنائی اہم ہوتی ہے۔ ہر ایک اینٹ کو درست بٹھانا بھی فنِ تعمیر کا کمال شمار ہوتا ہے۔ ان تمام امور میں مکان کے ڈیزائن کی خاطر بنیاد کی مضبوطی کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ تعمیراتی پروجیکٹس میں مہنگے اور قیمتی مٹیریل کے استعمال سے تعمیراتی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ مکان کی تعمیر پر آنے والی لاگت کا تخمینہ پہلے ہی لگا لینا چاہیے تاکہ بجٹ کے حساب سے خرچے کیے جائیں۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ تعمیراتی منصوبے اپنی لاگت کے باعث خریدار کی پہنچ سے دور چلے جاتے ہیں۔
ہوادار اور کشادگی
یہ وہ بنیادی اصول اور ضابطہ ہے جس کا خیال کسی بھی عمارت کی تعمیرات کے دوران رکھا جاتا ہے۔ بظاہر ہوا اور کشادگی تجریدی الفاظ ہیں جن کا کوئی ٹھوس وجود نہیں لیکن اگر ان لوازم کا خیال نہ رکھا جائے توکتنی بھی ٹھوس بنیاد پر کوئی مکان کھڑاہو،اسے آپ نمی کے باعث بوسیدگی کے اثرات سے نہیں بچاسکتے۔ اس لیے کسی بھی مکان کے ڈیزائن میں کشادگی کے ساتھ کھڑکیوں اورگیلریوں کا دانش مندانہ استعمال اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بند گھر نہ صرف تعفن اور گھٹن کا باعث بنتا ہے بلکہ کیڑے مکوڑوں اور یگر حشرات الارض کو بھی دعوتِ عام دیتا ہے۔
کھڑکیوں اور روشن دانوں کا ایک دوسرے کے مقابل ہونا ڈیزائن کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔ کھڑکیاں اس انداز سے نصب کی جائیں کہ اگر مکان کے کسی بھی کمرے ،باورچی خانے اور غسل خانے میں جائیں تو وہاں ہوا کے گزر میں رکاوٹ نہ ہو۔ ویسے تو المونیم کی نفیس کھڑکیوں اور روشن دانوں کی تنصیب کا رواج ہے لیکن جو سماں لکڑی کی کھڑکیاں باندھتی ہیں اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔ آج بھی ہم جب لکڑی کے کام والی قدیم عمارتوں کو ملاحظہ کرتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں۔ ملک میں پرانے وقتوں کی کئی عمارتیں موجود ہیں جن میں نقش و نگار والی دیدہ زیب لکڑی کی کھڑکیاں نظر آئیں گی جو مشاق کاریگروں کی ہنر مندی کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔
جب کوئی ماہر مصور یا فوٹو گرافر قدیم ادوار کی نشانبر کھڑکیوں کی عکاسی کرتا ہے تو دنیا کو پتا چلتا ہے کہ ہماری مشرقی ثقافت کے رنگ کتنے تیکھے تھے۔ آج جب پوری دنیا کو ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے تو ایک بار پھر ٹھنڈی تاثیر رکھنے والی لکڑی کی کھڑکیوں کے استعمال پر توجہ دی جانے لگی ہے۔ ماہرین تعمیرات اب لکڑی،المونیم اور اسٹیل کے حسین امتزاج پر دھیان دے رہے ہیں، ساتھ ہی پتھر کی مختلف اقسام کے استعمال کی پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ پوری دنیا میں سبز مکانات کا تصور اس فلاسفی پر مبنی ہے کہ ہوادار گھر کے بغیر ہمارا جینا محال ہے کیونکہ تازہ ہوا سانس لینے کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ وہی گھر فطرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے جس میں ہوا کے گزر اور کشادگی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو۔
ماہر آرکیٹیکچر کی خدمات
مذکورہ بالا دو بنیادی اصولوں پر عمل کرنے کے لیے کسی بھی مکان یا اپارٹمنٹ کے تعمیراتی نقشے کو اہم جانیے۔ ایک ماہرنقشہ ساز ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ پلاٹ کے مطابق بنیادوں کو کتنا گہرا ہونا چاہیے، کیسے اسے نمی اور زلزلے کے اثرات سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے اور کیسا ڈیزائن کشادگی اور ہوا کی روانی کو ممکن بنائے گا۔ اس کے علاوہ کھڑکیوں کا زاویہ کیسا ہونا چاہیے کہ قدرتی روشنی اور ہوا کے اندر آنے میں کوئی رکاوٹ درمیان میں حائل نہ ہو۔
ایک ماہر نقشہ ساز ہی دراصل عمارت کا نبض شناس ہوتا ہے، وہ زمین اور اس کا رقبہ دیکھ کر ہی چشم ِ تصور میں ایسا ڈیزائن مرتب کرلیتا ہے جو مکینوں کو فطرت کے قریب کردے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک محدود رقبے پرکیسا نقشہ تیار کرنا ہے جس میں جمالیاتی ذوق کی ساری خوبیاں سما جائیں۔