میں جب اقبال کو پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ خدا نے یہ کنول کا پھول کن پانیوں میں اگایا ؟گزشتہ رات کلیات اقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے میں ایک دفعہ پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اقبال اپنی قوم کو پستیوں سےکھینچ کر اپنی سطح پر لانا چاہتا ہے لیکن قعر مذلت میں گرے ہوئے قوم کے سبھی طبقے اسے کھینچ کھانچ کر اپنے برابر کھڑا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ہم کلیاتِ اقبال میں سے اپنے سائز کا اقبال تلاش کرتے ہیں اور پھر اسے محفلوں میں لئے پھرتے ہیں۔ اقبال وہ جن ہے جس کا قد آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور جس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں ۔اسے دیکھ کر ہمیں اپنی کوتاہ دامنی کا احساس ہونے لگتا ہے چنانچہ ہم جنتر منتر پڑ ھ کراس جن کو مکھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔بالکل اسی طرح جس طرح پرانی داستانوں میں کوئی مکرو جادوگر کسی خوبصورت شہزادے کو مکھی بنا کر بوتل میں قید کر دیتا ہے ۔اقبال ممولے کو شہباز سے لڑانا چاہتا ہے ، اقبال ذہنوں کو کشادہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ دماغ کو کام کرنے کی اجازت دی جائے لیکن ہم شاہ دولے کے چوہے بنے رہنے پر اصرار کرتے ہیں ۔اقبال کو کٹھ ملائیت سے چڑ کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال نہیں کرتے بلکہ دلیل کے طور پر اپنے سے بھی گئے گزرےکسی ’’عالم‘‘ کی سند تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور یوں اس کا ذہن کشادہ نہیں ہو پاتا:
فقیہ شہر کی تحقیر کیا مجال میری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
پرانا لطیفہ ہے کہ ایک سردار جی چھپڑ میں ہاتھ ڈال کر اپنی گری ہوئی چونی تلاش کر رہےتھے اور ساتھ دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ میری چونی مل جائے ۔ایک دوسرے سردار کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے موصوف کو ڈانٹتے ہوئے کہا، یہ تم نے کیا یااللہ لگائی ہوئی ہے، واہ گرو سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ اس پر سردار جی نے بے نیازی سے اس کی طرف دیکھا اور بولا، میں ایک چونی کی خاطر اپنے واہ گرو کا ہاتھ چھپڑ میں ڈلوانا نہیں چاہتا مگر ہمارے مذہبی پیشوا چونی سے بھی کم تر مقاصد کے لئے اللہ اور اس کے رسول ؐ کا نام استعمال کرتے ہیں جس کے ہولناک نتائج آج سامنے آ رہے ہیں ۔کورونا کی آمد سے پیشتر میں بیرون ملک گیا، اُس وقت ہمارے ہاں حسب معمول سیاسی سرگرمیاں جوبن پر تھیں ٹی وی چینلز حسب ضرورت لائیو کوریج کرتے تھے چنانچہ بیرون ملک مقیم پاکستانی مجھ سے ملتے تو یہی سوال کرتے کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟پہلے تو میں حسبِ توفیق انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا حتیٰ کہ بار بار کئے جانے والے اس سوال سے زچ ہو کر ایک دن میں نے ایک دوست کے اس سوال کے جواب میں کہا کہ جب دوسری جنگ عظیم نے طول پکڑا اور لوگوں کی پریشانی اپنے عروج پر پہنچ گئی تو چرچل کے ایک قریبی دوست نے چرچل سے ملاقات کا سوچا تاکہ وہ براہ راست اس سے پوچھے کہ یہ جنگ کب ختم ہو گی کیونکہ لوگ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کر رہے تھے؟وہ تین دفعہ چرچل کی طرف گیا مگر چرچل کے مسلسل میٹنگوں میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس کی ملاقات نہ ہو سکی تاہم ایک روز بالآخر وہ ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگیا، یہ شخص چرچل کے آفس میں داخل ہوا تو اسے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اس وقت اس کا دوست ریلیکسنگ موڈ میں ہے، چرچل نے خوشدلی سے اپنے دوست کو ویلکم کیا ۔ سگار سلگایا اور اپنے دوست کے سوال سے پہلے ایک کش لیکر اس سے پوچھا، یار یہ جنگ کب ختم ہو گی؟مجھے لگتا ہے کہ چرچل کی طرح ہمارے رہنمائوں کے سامنے بھی مستقبل کا نقشہ واضح نہیں ہے کہ آخر وہ بھی تو ہم ہی میں سے ہیں۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ میں بار بار گھوم پھر کر ایک ہی نکتے پر آ جاتا ہوں مگر اقبال بھی تو دل کی کشاد والی بات بار بار کرتا ہے۔ یہ دلوں کی گھٹن ہی کا نتیجہ ہے کہ قوم کے سبھی طبقوں میں عدم برداشت کا زہر پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ میں نے پاکستان کا ابتدائی دور دیکھا ہے، اُن دنوں لوگوں میں برداشت کا مادہ بہت زیادہ تھا، کیا آج کے دور میں اُس رویے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ خدا کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کریں جن خیالات کو آپ پسند نہیں کرتے ،اس کے جواب میں اختلاف کرنے والے کے سر پہ اینٹ نہ ماریں، اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی نہ کریں بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دیں کہ اس وقت ملک کی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اختلافِ رائے کوبرداشت کرنا بھی ہے ۔چنانچہ عسکری تنظیموں کا وجود میں آنا اور یوں اس کا نتیجہ عوام کےسکون اور ملکی معیشت کی بربادی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ۔
کالم کی سنجیدگی کم کرنے کے لئے ایک لطیفہ سن لیں۔ یہودیوں نے تو آہ و زاری اور اپنے گناہوں کی معافی کیلئے دیوارِ گریہ بنائی ہوئی ہے۔ہم نے بھی آہ وزاری کے لئے اپنی اپنی دیوار گریہ منتخب کر رکھی ہے جہاں جاکر ہم روتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں کچھ کی دیوارِ گریہ واشنگٹن ہے، کسی کی کوئی عرب یا ہمسایہ ملک اور کسی کی دیوارِ گریہ پنڈی ہے جہاں یہ لوگ جاتے ہیں، گڑگڑا کر روتے اور اپنے ’’گناہوں‘‘ کی معافی مانگتے ہیں، اگر وہاں سے معافی مل جائے تو سارے دلدر دور ہو جاتے ہیں ورنہ پھانسی بھی ہے، جلا وطنی بھی ہے ہم لوگ کیوں اپنی مدد آپ نہیں کرتے؟ ہم ملکی ترقی کےلئے اپنے دونوں ہاتھ استعمال کیوں نہیں کرتے۔ایک ہاتھ آپ کا ہو اور ایک ہاتھ آپ سے اختلاف کرنے والے کا اور یہ دونوں اگر مل جائیں تو پھر ہمیں کسی دیوار گریہ کی ضرورت نہیں رہتی لیکن کبھی ایک ہاتھ کھجلانے کے کام میں مشغول ہوتا ہے اور کبھی دوسرا ہاتھ اور یوں ہماری قوم ایک عرصے سے صرف ایک ہاتھ سے کام لے رہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اقبال ہمیں شاہین دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں ’’مُنڈا‘‘ کہلانے کا شوق کیوں ہے؟