• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی محبت اکثر پہلی نظر میں ہوتی ہے اور کسی شادی میں خواتین والی سائڈ پر کھانا سرو کرتے ہوئے ہوتی ہے۔عموماً پہلی محبت پندرہ سے بیس سال تک کی عمر میں ہوجانی چاہئے ورنہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اُس کے بعد ہونے والی محبت کے انتہائی بھیانک نتائج نکلتے ہیںیعنی شادی ہوجاتی ہے۔پہلی محبت انتہائی شدید ہوتی ہے،دل چاہتا ہے جس کو ہم چاہتے ہیں اُس کی طرف کوئی نظر اٹھا کے نہ دیکھے،کئی لڑکے اِس موقع پر لڑکی کو ہر روز قیامت کا منظر یاد کراتے ہیں’’شکیلہ! یہ جو نعیم ہے یہ بہانے بہانے سے لڑکیاںگھیرتاہے اور پھر انہیں درہ آدم خیل بیچ آتا ہے‘‘۔ پہلی محبت ہر اُس لڑکی سے ہوجاتی ہے جو پہلی دفعہ لفٹ کراتی ہے، اس مقصد کے لیے اکثر خود سے محنت کرنا پڑتی ہے یعنی بار بار لڑکی کے آگے سے گزرنا پڑتاہے، اس کے سامنے فقیر کو اوقات سے بڑھ کر خیرات دینا پڑتی ہے ،بار بار موبائل فون پر لندن، امریکہ کال کرنا پڑتی ہے اور کبھی کبھی تودن میں دو دفعہ شیو کرنا پڑتی ہے۔ پہلی محبت زندگی میں بڑی خوشگوار تبدیلی لاتی ہے،بندہ بیٹھے بٹھائے شاعر بن جاتاہے، ڈائری لکھنے کو جی چاہتاہے،احمد فراز کی غزلیں یاد ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور گھر والے زہر لگنے لگتے ہیں۔ کئی لڑکے ہر محبت پہلی محبت سمجھ کر کرتے ہیں اور آخری سمجھ کر دوڑ جاتے ہیں۔پہلی محبت کا اظہار بڑا دلچسپ ہوتاہے،پرانے وقتوں میں اِس مقصد کے لئے لڑکی کو رقعہ لکھا جاتاتھا اور رقعے پر ’’پوائزن‘‘ پرفیوم کا اسپرے بھی کر دیا جاتا تھا تاہم اُس کے نتائج بڑے خطرناک نکلتے تھے۔پہلی محبت بڑی عجیب ہوتی ہے۔محبوب کی بکواس بھی شیکسپیئرکا ڈائیلاگ لگتی ہے، محبوب اگر اتنا ہی کہہ دے کہ ’’زندگی محبت کے بغیر ادھوری ہے‘‘ تو دل میں حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ماشاء اللہ ہمارا محبوب کتنی گہری باتیں کرتاہے۔یہ وہ موقع ہوتا ہے جب محترمہ کسی بات پر تھوڑا سا مسکرا اٹھے تو فوراً یاروں دوستوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ’’آج وہ بڑا ہنسی‘‘۔لڑکی کو اگر کوئی شعر پسند آجائے تو لڑکے کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے یہی بتائے کہ یہ شعر اُس نے خود’’بنایا‘‘ ہے۔میرے ایک دوست نے تو انتہا کردی، احمد فراز کی پوری غزل محبوبہ کو یہ کہہ کر پیش کر دی ’’رات تمہارے خیال میں بیٹھا تھا کہ آمد ہوگئی‘‘۔وہ بھی ایسی اللہ میاں کی گائے تھی کہ کہنے لگی’’شکیل! غزل بہت اچھی ہے لیکن کہیں کہیں سے بے وزن لگتی ہے‘‘۔ہمارے ہاں ہر شخص پہلی محبت کے تجربے سے گزرتاہے اور پھر کندن ہوجاتاہے،اس کے بعد اسے دوسری تیسری یا چوتھی محبت کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی ، سارے طریقے یاد ہوجاتے ہیں اور پرانا مٹیریل ہی چل جاتاہے۔کہتے ہیں پہلی محبت کبھی نہیں بھلائی جاسکتی ،ظاہری بات ہے وہ عفیفہ جس سے شادی نہ ہوئی ہو اسے کو ن بھول سکتاہے۔شادی شدہ مرد کو عمر کے چالیسویں سال اپنی پہلی محبت بہت یاد آتی ہے یوں پہلی محبت کا ’’چالیسواں‘‘ منایا جاتاہے۔

پہلی محبت کرنے والوں کو بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کاش زندگی کے کسی موڑ پروہ اُس بے وفا کو دیکھ سکیں جس سے انہیں دل کی گہرائیوں سے عشق ہوا تھا۔ میرے ایک دوست کو 25 سال بعد پتا چلا کہ اس کی پہلی محبت ایک اسکول میں پرنسپل لگی ہے اور اسکول بھی وہ جس میں اُن کا بچہ پڑھتاہے۔ سوئے ہوئے جذبات ایک دم جاگ اٹھے۔ پرنسپل صاحبہ کو فون کیا اور اپنا نام بتایا۔تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر دوسری طرف سے کسی کے سسکیاں لینے کی آواز آئی، یہ بھی آبدیدہ ہوگئے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔اچانک بیگم کی آواز آئی’’وے بچے نوں اسکولوں لے آ‘‘۔ فوراً خود پر کنٹرول کیا‘ آنسو پونچھے اور اپنے تئیں عمدہ لباس زیب تن کرکے بچے کے اسکول پہنچ گئے۔ دھڑکتے دل کے ساتھ پرنسپل آفس میں قدم رکھا، دھیرے سے نظر اٹھائی اوربوکھلا گئے،سامنے ایک موٹی سی بڑی عمر کی خاتون نظر کی عینک لگائے اُنہیں گھور رہی تھیں۔ دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، پھرسلسلہ وہیں سے شروع ہوا جہاں سے ٹوٹا تھا… یعنی رونا شروع ہوگئے۔ پہلی محبت ہمارے اندر ایک احساس کو جگاتی ہے۔ یہ بلامقصد ہوتی ہے،اس کا انجام عموما ً جدائی ہوتاہے لیکن یہ ساری زندگی اپنی میٹھی کسک ہمارے اندر بھر جاتی ہے۔ پہلی محبت کا احسان جانئے کہ یہ ہمیں زندگی میں پہلی بار کسی کیلئے سوچنے کا موقع فراہم کرتی ہے، یہ ایک اسٹارٹر ہوتاہے۔بالکل ایسے جیسے ہم بچپن میں سائیکل کی قینچی چلانا سیکھتے ہیں، اس کے بعد موٹر سائیکل اور گاڑی دوڑاتے پھرتے ہیں لیکن قینچی چلانا نہیں بھولتا۔ یہ ساری یادیں بھی پہلی محبت کی طرح ہوتی ہیں، اُنہیں صرف یاد کیا جا سکتا ہے، واپس نہیں لایا جا سکتا۔

تازہ ترین