اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)حتمی نتائج سے قطع نظر گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا یہ پہلو حددَرجہ حوصلہ افزا ہے کہ رائے دہندگان کی متاثرکن تعداد نے انتخابی عمل میں حصہ لیا اور انتخابی مہم رائے دہی کی تکمیل سمیت پورے طور پر پُرامن رہی۔ اب جبکہ انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے پیش آمدہ ہفتوں اور ایّام میں امن و سکون کی فضا کو برقرار رکھنے میں انتظامیہ کو کس حد تک کامیابی حاصل رہتی ہے مشاہدے کا عمل ہوگا۔ حزب اختلاف مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی چھ آٹھ ہفتوں سے دہائی دیتی آ رہی ہیں کہ وفاقی حکومت انتخابات کے لئے پری پول دھاندلی میں مصروف ہے ان کے سکہ بند اُمیدواروں کو دھونس اور ترغیب و تحریص کے ذریعے وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی خاطر بڑی تعداد میں ووٹ یکجا کر لئے گئے ہیں جو ایسے ناموں کے لئے جاری ہوئے ہیں جنہیں بذریعہ ڈاک ووٹ دینے کا استحقاق حاصل نہیں تھا۔ اتوار کو جب رائے دہی کا عمل جاری تھا مسلم لیگ نون کی رہنما عظمیٰ بخاری اور سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی پارلیمانی گروپ لیڈر شیری رحمٰن نے دوپہر سے پہلے ہی نشاندہی کر دی تھی کہ پولنگ اسٹیشنز پر غیرجانبدار مبصرین کا داخلہ مشکل بنایا جا رہا ہے تا کہ وہ رائے دہی کے عمل کی شفافیت کا جائزہ نہ لے سکیں۔ ان کے پولنگ ایجنٹس کے لئے بھی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ حزب اختلاف کی سبھی جماعتوں کو گلگت بلتستان کے ان انتخابات کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ حزب اختلاف ان انتخابات کے بارے میں اپنا لائحہ عمل اور باضابطہ ردعمل پاکستان جمہوری تحریک کے سربراہی اجلاس کے بعد ہی جاری کرے گی جو منگل کو ہوگا۔ تحریک انصاف نے وہ کونسا شاندار کارِ نمایاں انجام دیا ہے کہ علاقے کے عوام اس پر فریفتہ ہو جائیں یہ دلچسپ استفسار کیا جا رہا ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے عوام اپنے علاقے میں پاکستان کے گزشتہ اڑھائی سالہ دور کے کارفرمائی کا نمونہ اپنے ہاں نافذ کرنے کے خواہاں ہیں یہ کارکردگی مثال بن سکتی ہے تو پھر انتخابی نتائج پر اعتراض کی گنجائش محدود ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان نے انتخابی نتائج کی تکمیل کا انتظار کئے بغیر جس طور پر کورس کے انداز میں اپنی کامیابی کے نغمے الاپنے شروع کر دیئے تھے وہ معاملے کی شفافیت اور جامع منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتے ہیں ان انتخابی نتائج سے تحریک جمہوریت کا بیانیہ قوی تر ہوا ہے غور طلب ہوگا کہ علاقے کے عوام نتائج کے بارے میں کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ دھاندلی نہیں ہوئی تو وہ یقیناً خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے ورنہ انہیں مطمئن کرنا بہت دُشوار ہوگا۔