اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) پاکستان اور روس کے درمیان شمال جنوبی گیس پائپ لائن منصوبے (این ایس جی پی پی) پر تین روزہ مذاکرات کا آج سے آغاز ہورہا ہے۔
روس کی وزارت توانائی کے نمائندہ خصوسی ڈی ایل کیپنک کی سربراہی میں تکنیکی ٹیم منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اسلام آباد پہنچ چکی ہے۔ مذاکرات میں بین الحکومتی معاہدے میں ترمیم اور ایکویٹی شیئرنگ فارمولے پر بات چیت کے علاوہ جوائنٹ وینچر کمپنی کے ایس پی وی پر بھی بات چیت ہوگی۔
مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی انٹر اسٹیٹ گیس کمپنی کی ایم ڈی سائرہ نجیب کریں گی۔یہ منصوبہ پہلے ہی 5 سال تاخیر کا شکار ہوچکا ہے۔ دونوں ممالک اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔
ماضی میں بھی روس نے پاکستان میں پاکستان اسٹیل ملز اور او جی ڈی سی ایل کے قیام میں مدد دی تھی۔ جب کہ پاکستان، روس سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم بھی درآمد کررہا ہے۔ مذکورہ منصوبہ تقریباً 2.25 ارب ڈالرز کا ہے۔
16-18 نومبر تک جاری ان مذاکرات میں دونوں ممالک کی تکنیکی ٹیمیں آئی جی اے میں ترمیم پر بات چیت کریں گی ۔ پاکستان پہلے ہی روسی ٹیم کو گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیز (جی آئی ڈی سی) سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر بریفنگ دے چکا ہے۔
جی آئی ڈی سی کی مد میں 305 ارب روپے جمع کیے جاچکے ہیں جو فنانس ڈویژن کے پاس ہیں۔ جب کہ فرٹیلائزر، سی این جی، پاور سیکٹر اور صنعتی شعبے سے بھی ابھی 517 ارب روپے بازیاب کرنا باقی ہیں۔ اسلام آباد نے تجویز دی ہے کہ پاکستان کے اس منصوبے میں 51 فیصد ایکویٹی شیئرز ہوں گے جب کہ روس کے 49 فیصد شیئرز ہوں گے۔
51 فیصد ایکویٹی میں زمین کے حصول کے اخراجات، سیکورٹی اور گیس کمپنیز، سول ورکس سروسز شامل ہوں گی۔ جب کہ منصوبے میں 25 سال کے لیے تعمیر، ملکیت، آپریٹ اور ٹرانسفر(بوٹ) کی بنیاد پر انجینیئرنگ، پروکیورمنٹ اور تعمیرات (ای پی سی)، ایکویٹی پر منافع (آر او ای) کے حوالے سے پیش رفت پر بھی بات چیت ہوگی۔
پاکستان سوئی کمپنیز، جوائنٹ وینچر کمپنی کی جانب سے فیڈ کے ذریعے تعمیرات چاہتا ہے۔ جب کہ اس کے لیے کمپریسرز، پائپ لائن اور دیگر آلات روس فراہم کرے گا۔ ٹی ایم کے دنیا کی نمبرون پائپ لائن بنانے والی کمپنی ہے اور منصوبے میں اس کا اہم کردار ہوگا۔ واضح رہے کہ گہرے سمندر ہوں یا زمین پر، روس کی پائپ لائن بچھانے میں مہارت غیرمعمولی ہے۔