پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے سابق صوبائی صدر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کے اپنی پارٹی کی مرکزی قیادت کے بیانیہ اور دیگر امور پر اختلاف کے باعث پارٹی سے راہیں الگ کیے جانے پر ابھی صوبے میں سیاسی حلقوں میں بحث کا سلسلہ جاری تھا کہ ایسے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل ایک بڑی جماعت جمعیت علما اسلام جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اس وقت پی ڈی ایم کی قیادت بھی کررہے ہیں کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ممتاز پارلیمنٹرین اور اپنے مخصوص انداز گفتگو کے باعث ملک بھر کے سیاسی حلقوں میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں کو پارٹی کی مرکزی قیادت نے ان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے اپنے بیانہ کے حوالے سے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدئے سے ہٹادیا۔
اس بات کا فیصلہ جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا ساتھ ہی حافظ حسین احمد سے ان کے بیانہ اور دیگر امور پر بات چیت کے لئے جمعیت کے سندھ سے سنیئر رہنما مولانا عبدالقیوم ہالیجوی کی سربراہی میں ایک سات رکنی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ مرکزی قیادت کو پیش کرئے گی۔
تاہم یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مذکورہ کمیٹی کو حافظ حسین احمد کی پارٹی رکنیت ختم یا برقرار رکھنے کے سلسلے میں بھی اختیار دیا گیا ہے ۔ حافظ حسین احمد پارٹی کے نہ صرف سنیئر رہنما بلکہ انتہائی تجربہ کار پارلیمنٹرین بھی ہیں جن کی صوبے سمیت ملکی سیاست پر گہری نظر ہے جس کا اظہار وہ اپنے مخصوص انداز تحریر و گفتگو میں کرتے ہیں اکثر اوقات ایک جملے وہ بات کہہ جاتے ہین جن کے ایک سے زیادہ مطلب نکلتے یا لیے جاتے ہیں ، ان کے طنزیہ انداز کے جملے بھی اپنے اندر کاٹ رکھتے ہیں ، کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ کے بعد ایک ٹی وی پروگرام میں حافظ حسین احمد نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے بارئے میں انتہائی سخت ریمارکس دیئے۔
انہوں نے میاں نواز شریف پر ڈسنے اور بار بار اتحادیوں کو نظر انداز کرنے کے الزامات بھی لگائے اگرچہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے حافظ حسین احمد کے بیان کو ان کا زاتی موقف قرار دیا تھا جبکہ حافظ حسین احمد نے اپنے بیان کے حوالے سے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے اس موقف کا پارٹی فورم سمیت میڈیا میں پہلے بھی اظہار کرتے آئے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے بعد ملین مارچ میں وعدئے کے باوجود مسلم لیگ (ن) اس میں شامل نہ ہوئی جس کی وجہ سے پورا بوجھ جمعیت کے کارکنوں پر پڑا تھا اسی طرح ایف ائے ٹی ایف کے معاملے پر بھی مسلم لیگ (ن) نے جمعیت سے وعدہ پورا نہ کیا نہ صرف یہ بلکہ دیگر اہم مواقع پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے جمعیت علما اسلام سے کیے گئے وعدئے بھی پورئے نہیں کیے گئے۔
حافظ حسین احمد کے اس موقف کے بعد اگرچہ اس وقت پارٹی کا مزید ردعمل تو سامنے نہ آیا لیکن اگلے روز پارٹی کے امیر مولانا فضل الرحمٰن کی لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماوں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد صوبے کے سنجیدہ سیاسی حلقوں میں کچھ لوگوں نے اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ حافظ حسین احمد اور ان کی جماعت کے بیانیہ میں واضح فرق آگیا ہے اور شائد ان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے اور یہ بھی توقع کی جارہی تھی کہ حافظ حسین احمد کی جانب سے پارٹی بیانیہ سے ہٹ اپنے بیانیہ کی وضاحت کریں گے اور اس کے بعد معاملہ سلجھ جائے گا مگر ایسا نہ ہوا بلکہ توقعات کے برعکس ان کی مزید سخت باتوں اور بیانات سے معاملہ الجھ گیا۔
اس تمام تر صورتحال کے باوجود بعض سیاسی حلقے یہاں تک جمعیت علما اسلام میں شامل بعض رہنماوں سمجھتے تھے کہ ایک تو حافظ حسین احمد پارٹی کے اس وقت صوبے سے سنیئر ترین رہنما ہیں اور پارٹی کے اہم عہدئے پر فائض ہونے کے ساتھ ان دنوں علیل ہیں لہذا شائد پارٹی ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے اجتناب کرئے گی لیکن یہاں یہ بات بھی اہمیت اختیار کرگئی تھی کہ اگر پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے کوئی اقدام نہ کیا جاتا تو شائد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے لئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سوالات کے جوابات دینا اور انہیں مطمئن کرنا آسان نہ ہوتا ، جس کی وجہ سے جمعیت کی قیادت کو حافظ حسین احمد کو مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدئے سے ہٹانے کا سخت اور شائد مشکل فیصلہ بھی کرنا پڑا۔
لیکن دوسری جانب حافظ حسین احمد اس کاروائی کے بعد بھی اپنے بیانیہ پر سختی قائم نظر آتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز کے ایک عالمی نشریاتی ادارئے کو حال ہی میں دیئے جانے والے انٹرویو پر انتہائی ردعمل کے طور کیا ، جس کے بعد واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ اپنے بیانیہ کے حوالے سے اب حافظ حسین احمد اور پارٹی کی مرکزی قیادت ایک پیج پر نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان کے ایک روزہ دورئے کے دوران تربت میں مختلف منصوبوں کا افتتاح کیا اور ان منصوبوں کو جلد مکمل کرنے کا وعدہ اور دعویٰ کیا ہے۔
جن میں گیس و بجلی کی فراہمی صحت کے شعبے میں احساس نشوونما ، وسیلہ ڈیجیٹل تعلیمی منصوبہ ، انٹر نیٹ ، زراعت ، لائیو اسٹاک ، ماہی گیری ، سرحدی علاقوں میں منڈیوں کے قیام سمیت دیگر شامل ہیں اس موقع پر منعقدہ تقریبات سے خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہئے کہا کہ ایسے وزیر اعظم بھی آئے جو بلوچستان کے بجائے لندن زیادہ گئے اور ایسے صدر آئے جو دبئی زیادہ گئے بلوچستان کم آئے، ہم ہر طرح سے بلوچستان کی مدد کریں گے، ماضی میں بلوچستان میں فنڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ صوبہ پیچھے چلا گیا،بلوچستان میں کبھی بھی اتنی فنڈنگ نہیں ہوئی جتنی ہماری حکومت نے کی ہے، بلوچستان میں ترقی نہ ہونے کی وجہ ماضی کے حکمران ہیں، ماضی میں بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں نے بھی ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور بدقسمتی سے ملک میں ایسے سیاسی رہنما آئے جنہوں نے وطن سے زیادہ ذاتی مفاد پر توجہ دی۔