• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی قومی سیاسی صورتحال سرخ نشان کے دائرے میں سوال کندہ ہے۔ اب تک کا ملکی ماضی اس معاملے میں خاصا خود کفیل رہا، سو شاید ہی کوئی حیران ہوا ہو البتہ ماضی کے مقابلے میں عوام کے اندر ایک تضاد کا واضح وجود اور ابھار دیکھا جا سکتا ہے، لوگ کسی بھی آئینی یا غیر آئینی طریقے اور حربے سے، منتخب جمہوری پارلیمانی نظام کا تسلسل زخمی ہوتا دیکھنے کو تیار نہیں، عوامی شعور نہ کسی اخلاقیات کا منکر ہے نہ کسی احتساب کا، کچھ اس قسم کا سوال مگر اس کے اندر پیدا کیا ہے یعنی موجودہ منتخب حکومت کے وزیراعظم کے بارے میں فیصلے کی مجاز پارلیمنٹ ہے، یہ اِدھر اُدھر سے، دائیں بائیں سے، نیچے اوپر سے، دور دراز سے، ’’حکومت جا رہی ہے‘‘ کی کتاب کے ابواب کیوں لکھے اور کیوں بنائے جا رہے ہیں؟ یہ حضرات یا طبقے بھی محب وطن ہی ہیں مگر ضروری نہیں صاحب ادراک و صاحب نظر بھی ہوں، انہیں جمہوری پارلیمانی نظام کے تسلسل میں نجات کا لمحہ پہچاننے کی ذہنی سطح ہی نصیب نہیں، سو خالی حب الوطنی، بصیرت کے زیور سے جو محروم رہے، کسی ملک و قوم کے مسائل کا حل یا تجویز اسے نہیں سونپی جا سکتی۔
تنازع کا اصل محور زرداری یا نواز نہیں، آئینی مدت کی تکمیل کا خوف ہے؟ جن کو پتہ ہے، وہ جانتے ہیں دو مزید قومی انتخابات کا مسلسل آئینی انعقاد انہیں داستان پارینہ کے عجائب گھر کی زینت بنا دے گا، ہماری آئندہ نسلوں کے اساتذہ اس عجائب گھر کی سیر و تفریح کے دوران میں پیارے بچوں اور شوخ نوجوانوں کو بڑے بڑے سنسنی خیز واقعات سنا کر، سامان لذت و حیرت سے لطف اندوز ہوا کریں گے! آصف علی زرداری، کہ ’’چیزیے دیگر است‘‘ کی منتخب حکومت کا مکمل ہونا پاکستانی عوام کی نفسیات کو قومی سیاسی ادارے کی پشت پناہی کا احساس دلا چکا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے عادل گیلانی بہت ذہین، سپر محب وطن ہوں گے، وہ کرپشن کے مسئلے پر اظہار رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے یہ کہنے کے مجاز ہیں، ’’آرمی چیف ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے کر ملک سے کرپشن ختم کریں‘‘، جواباً اظہار رائے کا حق پاکستانی عوام کو بھی درکار ہے اور ان کا کہنا ہے آپ کی تجویز اور آرمی چیف کا مقام دونوں سے ہمیں کوئی مقابلہ نہیں کرنا، چونکہ سواد اعظم کے فیصلے کے تحت قومی فیصلے اور قومی کردار کی تشکیل ووٹ کے ذریعے ہونا طے ہو چکی ہے، چنانچہ برائے مہربانی آپ اپنی تجویز قومی پارلیمنٹ میں لے جائیں، وہ ہمارے ووٹوں سے منتخب شدہ ادارہ ہے، وہاں اس کا فیصلہ کروا لیں، ہمیں خدشہ ہے آپ جیسے معزز ترین سپر محب وطن حضرات کی جانب سے ایسی تجویز اور آراء ہمارے حق ووٹ پر ایک مقدس ڈاکہ زنی ثابت ہو سکتی ہے‘‘، یہ ہے وہ نفسیات جس کے تحت ان دنوں ایسے تمام دروازوں میں کوئی عوامی طبقہ جھانکنے تک کا روا دار نہیں، وہ جان چکے، سمجھ چکے، فیصلہ کر چکے، پاکستان میں جو بھی تبدیلی آنی ہے، ارتقاء سے آنی ہے اور ارتقاء کا واحد ’’صراط مستقیم‘‘، ووٹ کا مسلسل استعمال ہے، خواہ مخلصانہ، خواہ غیر مخلصانہ حوالوں اور پس منظر سے یہ رہ کھری کرنے والے ہمارے خیر خواہ نہیں، ہم 1958تا 2008کے دورانئے میں سیکھ گئے ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا، سابق صدر آصف علی زرداری کا، کہ ’’چیزیے دیگر است!‘‘، ان کی منتخب قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کی آئینی مدت کا مکمل ہونا پاکستانی عوام کی نفسیات کو قومی سیاسی ادارے کی پشت پناہی پر صف بند کر چکا ہے، جمہوری تسلسل کے خلاف طاقتور مراکز کے تاریخی وجود، جنونیت کے پہاڑوں، نواز شریف کی نہ دکھائی دینے والی ٹھنڈی آگ جیسی اپوزیشن، عدل و توازن سے خود سری پر مبنی عدالتی مفالیت اور نفس پرستی میں غرقاب میڈیا ٹرائل کا انہوں نے ’’صبر، شجاعت اور انتظار‘‘ کی ہدایت یافتہ مثلث میں قیام پذیر ہو کے وسیع الظرف استقامت اور حسین ترین وقار کیساتھ سامنا کیا۔سابق صدر آصف علی زرداری کی منتخب قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کا اپنی آئینی جمہوری حکومت کا دورانیہ سرخروئی کیساتھ گزار جانا ایک انفرادی وقوع نہیں پاکستان اور پاکستانی قوم کے تاریخی ارتقائی سفر کے دورائیوں میں لگے جھٹکوں، دھچکوں، در اندازیوں اور سازشوں کی دراڑیں ختم کرنے کا ایک اجتماعی جمہوری انتقام تھا، انہوں نے شور و غوغا سے کام نہیں لیا، بس قوم کو ساتھ لے کر جمہوریت کے تقاضوں سے آراستہ و پیراستہ قومی منزل حاصل کر لی۔ منتخب حکومت کی آئینی مدت کا پورا ہو جانا…! یہ وہ مرحلہ ہے جب ’’نواز بحران‘‘ پرنامہ فرسائی سے پہلے سابق صدر کی شخصیت کے سیاسی اور فکری اسٹرکچر کا بیانیہ دوسرے منتخب وزیراعظم نواز شریف پر گفتگو میں آسانی بہم پہنچائے گا۔ سابق صدر آصف علی زرداری اپنی شخصی ساخت اور سیاسی سفر کے ایک ایسے قومی رہنما ہیں جنہوں نے کردار کشی، بدزبانی اور بلند ترین آہنگ پر چیختی چنگھاڑتی ہرزہ سرائیوں جیسی سرخ آندھیوں میں ششدر آں پہچانے پر اپنا شخصی توازن برقرار رکھا، جس کی قید و بند نے برصغیر میں صف اول کے حریت پسندوں اور سیاسی لیڈروں کی یادوں کو حیات نو دی، جس نے زمانے کی لوح پر صبر، انتظار اور برداشت کا ایسا ریکارڈ ثبت کیا جسے نیلسن منڈیلا سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جو اپنے سیاسی وژن اور قیاس کے ذریعہ کسی قسم کے ابتذال کا شکار ہوئے بغیر اپنے راستے کے زہریلے اور جان لیوا کانٹے ہٹا دینے میں کامیاب رہا، جس کے بارے میں گوئبلز کی معنوی اولادوں نے کئی بار دروغ گوئیوں کے جہنم دھکائے، جنہیں آصف علی زرداری نے، جو اب پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ’’صدر‘‘ کہلائیں گے، محض اور محض اپنی شبنمی مسکراہٹوں کی پھلواروں سے ٹھنڈا کر دیا۔ سابق صدر پاکستان اپنے دور صدارت میں عملاً ایک ’’قومی لطیفے‘‘ سے اس وقت دوچار ہوئے جب انہوں نے جمہوری پارلیمانی تقاضوں کی تکمیل کیلئے اپنے اختیارات قومی پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو منتقل کر دیئے، تب ان کے مخالف قلمکاروں نے ان کا نام ’’فضل الٰہی چوہدری‘‘ رکھ دیا، یہ تمام فتنہ گر وہ تھے جنہوں نے صدارت کا حلف اٹھانے کے دوسرے لمحے ان سے اپنے اختیارات فی الفور قومی پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو منتقل کرنے کے ’’جہاد‘‘ کی شروعات کر دیں، آخر وہ اس پر عمل پیرا ہو گئے، پھر ان لوگوں نے ہی آصف علی زرداری کو ’’فضل الٰہی چوہدری‘‘ کا نام دے دیا، مسکرانے کی بات نہیں، قومی میڈیا میں نفس پرستانہ تہذیب کے خوگر ایسے حضرات پاکستانی قوم میں ’’فکری کینسر‘‘ ہیں، کوئی ’’مومن‘‘ ہی ان کیلئے مکافات عمل ثابت ہو سکتا ہے!
جس طرح پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی ایک قومی بائنڈنگ فورس ہے، بغیر پاکستان کے موجودہ منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف اور ’’ن‘‘ لیگ کی منتخب حکومت ملک کی دوسری بائنڈنگ فورس ہے،علی ہذا القیاس قومی سیاسی سطح کے ہر لیڈر اور جماعت کا درجہ بدرجہ یہی کردار اور یہی مقام ہے، تنازع پاناما لیکس سے پیدا شدہ ’’اخلاقی بحران‘‘ کا سوال حل کرنے کے طریقے پر ہے، قوم کا سواد اعظم اسے اپنی قومی نمائندگی مجاز ادارے پارلیمنٹ سے اس کا جواب لینے کو اپنے ووٹ کا آئینی استحقاق گردانتا ہے، بالمقابل اس کے چند گروہ یا افراد یہ جواب پارلیمنٹ سے باہر چاہتے ہیں، جھگڑا وہی ہے، دوسری منتخب جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت کی تکمیل نہ کرنے پائے، جمہوری سفر کے اس دوسرے سنگ میل کی رکاوٹوں کو جمہوری آئینی تقاضوں کی چھتری تلے عبور کرنے کا مطلب ووٹ کی صحرائی ساخت ہے، یہ ساخت قبول کرنا پڑے گی بصورت دیگر وقت ہمیں دریا برد کر دے گا؟ گویا آئینی مدت ہی اصل تنازعاتی محور ہے؟ دھرتی کے کسی فرد کو اس کی ذاتی طبیعت کے مدوجزر کی بنیاد پر قوموں کے مقدر سے کھیلنے کی اجازت اور جرأت نہیں دی جا سکتی۔ پاناما لیکس کی کہانی 3؍اپریل 2016کی ادھ گزری شب کے اندھیروں میں ’’طلوع‘‘ ہوئی۔ 4؍ اپریل کی صبح ’’اچانک‘‘ اس کی ’’اخباری کرنوں‘‘ سے قوم کی آنکھیں چندھیا گئیں، لفظ ’’اچانک‘‘پر غور فرمانے کی زحمت گوارا فرمائی بلکہ جاری رکھی جائے!
تازہ ترین