• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج فردوس عاشق اعوان سے ملاقات ہوئی، وہ ہفتہ شان ِ رحمت اللعالمین ﷺکے سلسلے میں یتیم بچوں کو گورنر ہائوس میں جمع کرکے اُن کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہ رہی تھیں۔ 

مجھے اُن کے پروگرام سے سرکارِمدینہﷺ یاد آگئے کہ اگر کوئی یتیم ہے تو دیکھ لے، یتیم ِعبداللہ نے مکہ کی گلیوں میں اپنی یتیمی کیسے گزاری ؟کوئی نوجوان اگر ایک ایسے غلط کا رمعاشرہ میں گھر گیا ہے جہاں ہر طرف فحاشی و عریانی کا دام ہمرنگ زمیں بچھا ہے تو اُسے مکہ کی طرف آنکھ اٹھانا چاہیےکہ عکاظ کا جشن ِ طرب برپاہے۔

شرابوں کے خم کے خم لنڈھائے جارہے ہیں، پورا مکہ اِن عصیانِ در آغوش دعوتوں پر لبیک کہتے ہوئے رنگینیوں میں ڈوبا ہوا ہےمگر ایک نوجوان ایسا بھی ہے جوان مناظر سے بے تعلق ہو کر گزر جاتا ہے اور غارِ حرا کی اداس خلوتوں میں گھٹنوں پر سر رکھ کر سوچتاہے۔

اس بے داغ شباب کا آفتاب نصف النہار تک پہنچ جاتا ہے اور لغزش کا تصور بھی اس کے دامن ِاطہر کو آلودہ نہیں کر پاتا ، جب بھر پور جوانی کو تاہل کی زندگی کا خیال آتا ہے تو نگاہ ِ انتخاب کسی حسن پُرشباب پر نہیں بلکہ ایک چالیس سالہ بیوہ پر آرکتی ہے جو حسنِ سیرت کا دلآ ویز پیکر ہے ۔

اگر کوئی اجیر ہے تو دیکھ لے کہ خدیجتہ الکبریٰ کا سامانِ تجارت فروخت کرتے ہوئے اُس شخص نے فرائض کو گرانباری ِغیر سمجھ کر کبھی ادنیٰ سی غفلت اور چشم پوشی سے بھی کام نہیں لیا۔ 

معاشرتی زندگی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انسان اپنوں اور غیروں کی نگاہوں میں بلند مقام پر فائز ہو۔ تاریخ میں کونساایسا شخص گزرا جس نے دشمنوں کو یہ چیلنج کیا ہے کہ میر ی زندگی میں کذب و دروغ ، فریب وریا ، فحاشی و عریانی غرضیکہ کسی بھی گناہ کا کوئی ادنیٰ ساداغ دکھادو؟ جان لیوا عزائم رکھنے والے دشمن بھی اس اعتراف پر مجبور ہیں کہ بلا شبہ آپکا دامن ِحیات بالکل بے داغ ہے۔ 

ہم نے اس پر غلط کاری کی کوئی ادنیٰ سی چھینٹ بھی نہیں دیکھی، اتنی پُرعظمت شہادت، اِس آسمان کے نیچے انبیاء کے سوا کہیں بھی کسی شخص کے متعلق نہیں دی گئی مگر کتنا عظیم تھا وہ شخص محترم جس کے لب اعلانِ صدق کے لئے وا ہوئے تو اس کا اپنا یار دیرینہ 'صدیق ' مردوں میں سب سے پہلے پکار اُٹھا۔(میں نے تصدیق کی اور ایمان لایا)۔ 

وہ بچپن ، لڑکپن اور جوانی کا ساتھی تو پوری زندگی کو بے نقاب دیکھ رہا تھااور اگر اس سے کوئی گوشہ مستور بھی رہا تو اس کے اپنے چھوٹے چچیر ے بھائی سے وہ گوشہ کہاں مخفی رہ سکتا تھا اور اگر بالفرض چند گوشے دوست اور بھائی سے بھی اوجھل رہ گئے تھے تو اُنہیں اس خلوت و جلوت میں شریک بیوی سے کہاں کہاں چھپایا جا سکتا تھا؟ بیوی کے سامنے تو انسان کی پوری زندگی عیاں ہوتی ہےمگر اُن کے دعویٰ کی اولین مصدق خود اُنکی بیو ی بنتی ہے۔ 

پھر یہ بھی دیکھئے کہ یہ قیادت اور سیاست کا جھگڑا نہیںبلکہ ایمان و عقیدہ کی تبدیلی کی بات ہے۔ یہ تصدیق ان بتوں کی تکذیب ہے جو صدیوں سے آبائو اجداد کی قبروں پر نصب ہیں اور نسلاً بعد نسل اپنی پرستش کا خراج و صول کر تے آئے ہیں ۔

سلیم رو حیں تسلیم کر لیتی ہیں کہ جس شخص نے عمر بھر جھوٹ نہیں بولا اس خاص معاملہ میں وہ کذب و دروغ کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ ہے وہ بے مثل کر دار جسکی صداقت ہر جگہ اور ہر شخص کیلئے ایسی ناقابل انکار تھی کہ ُاس وقت کا سب سے بڑا دشمن ابو سفیان بھی قیصر روم کے دربار میں کہتا ہے کہ’’ محمد ۖؐ کی پوری زندگی جھوٹ سے پاک ہے، وہ ہمیشہ صداقتوں کا امین رہا ہے مگر ہم اپنا آبائی مذہب نہیں چھوڑ سکتے ‘‘۔

مدینہ میں اُن کی ذات ایک حکمران کی حیثیت سے نمودار ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا حکمران ہے جو مسجد نبوی کے کچے فرش پر بیٹھا اپنے ساتھیوں کو اطوارِ جہانگیری اور قواعدِ جہاں بانی سکھا رہا ہے۔ 

دوسرے ملکوں سے وفد آتے ہیں تو انہیں پہچان نہیں ہوپاتی۔ درویشوں کے اس اجتماع میں اسلامی حکومت کا سربراہ کون ہے ؟ صحابہ کو خیال آتا ہے اور وہ اس کی عدم موجودگی میں صحن مسجد میں ہی ایک چھوٹا سا چبوترہ بنا دیتے ہیں مگر جب دنیا کو مساواتِ انسانی کا درس دینے والا یہ انوکھا حکمران اس چبوترے کو دیکھتا ہے۔ 

تو اس کی منور پیشانی پر ناگواری کی شکنیں اُبھرآتی ہیں اور جب اسے بتایا جاتا ہے کہ باہر سے آنے والے وفود کا خلجان دور کرنے کیلئے یہ چبوترہ بنایا گیا ہے تو وہ اپنے پائوں کی ٹھوکر سے اسے گراتے ہوئے کہتا ہے ’’لگے ہو تم بھی وہ امتیازات پیدا کرنے جنہیں مٹانے کیلئے میں آیا ہوں‘‘ عمران خان اور عثمان بزدار اسی چارہ ساز بیکساںﷺ، پیغمبرِ انسانیتﷺ کے نقشِ کفِ پاکو چومنے والوں میں شامل ہیں۔ 

اللّٰہ انہیں ان کے نقوشِ پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تازہ ترین