• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور کے پہلوانوں کا ذکر چھڑا تویاد آیا کہ ہمارے ساتھ اسکول (گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال) میں گاما پہلوان کے خاندان کا ایک لڑکا پڑھا کرتا تھا۔ مگر ششم کلاس ہی میں پڑھائی چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اُسے جونیئر گاما بھی کہا جاتا تھا اب پتہ نہیں کہاں ہو گا۔ بہت مضبوط اور طاقتور تھا۔ لاہور میں جاپانی پہلوان انوکی اور جھارا پہلوان کی کشتی بھی بہت مشہورہوئی ہے۔ موہنی روڈ پر کسی زمانے میں بھولو برادران کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ بھولو، اکی (اکرم)، اسلم، اعظم، گوگا بھی فنِ پہلوانی سے وابستہ رہے ہیں۔ پھر ان کے خاندان کے کچھ افراد نشے کے عادی ہو گئے۔ پہلوانی کے شعبے کو حکومت کی طرف سے کوئی حوصلہ افزائی نہ ہوئی جس کی وجہ سے لوگوں نے اس طرف آنا چھوڑ دیا۔ ایک کتاب پہلوانی رستم ہند گاما (غلام محمد) پہلوان پر بھی لکھی گئی تھی۔ یہ پانچوں بھائی موہنی روڈ اکھاڑے میں دنگل کی مشق کیا کرتے تھے۔ یہیں پر کسی زمانے میں نائلہ سینما بھی ہوتا تھا۔ موہنی روڈ پر بمبے زری فیکٹری ہے۔ جو پچھلے 74برس سے آج بھی کام کر رہی ہے۔ اس سڑک پر چیکھیں، موڑے اور ورق بنانے کی کبھی کئی دکانیں تھیں۔ اس سڑک کے ساتھ گورا قبرستان ہے۔جہاںپرانے انگریزوں کی قبریں ہیں اور ماحول بڑا ڈرائونا ہے۔ایک پوری تاریخ ہے ایسا ایسا انگریز یہاں دفن ہے کہ کیا بیان کریں ،نشہ کرنے والے افراد بھی اکثر یہاں آ جاتے ہیں۔

موہنی روڈ کی وجہ تسمیہ تلاش کے باوجود نہیں مل سکی۔ اس سڑک پر ایک قدیم فلور ملز بھی ہے۔ موہنی روڈ سے بائیں طرف باغ منشی لدھا ہے جہاں کبھی پارسی اپنے مردوں کو رکھ کر چلے جاتے۔ جن کو جانور کھاتے تھے اور ساتھ ہی بڈھا دریا تھا۔ جہاں کبھی راوی بہتا تھا۔ یہیں سر گنگا رام کی بے حال سمادھی بھی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں کسی شہر کو اتنے شاہی خاندانوں کا دارالحکومت اور بطور قیام گاہ کاشرف اور اعزاز حاصل نہیں ہوا جتنا لاہور کو حاصل رہا ہے۔ محمود غزنوی نے اس کا نام محمود پورہ بھی رکھا تھا۔ مگر یہ لاہور ہی کے نام سے مشہور رہا۔

آریوں کی فوج نے بھی اس شہر کو اپنا صدر مقام بنایا۔ بدھ مت کا آغاز بھی یہیں سے ہوا تھا۔ البتہ اب بدھ مت کے آثار ختم ہو چکے ہیں۔ پارسی بھی بے چارے اب دو چار ہی رہ گئے ہیںجن کی آبادی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی قدیم لاہور کے گرد ایک فصیل ہوا کرتی تھی۔ اس فصیل کے آثار شیرانوالہ دروازے کے قریب ہم نے بھی کبھی دیکھے تھے۔ کبھی شہر کے تیرہ دروازوں کے باہر پارک اور کھلی جگہ ہوا کرتی تھی اور اس کے اردگرد ایک نہر تھی۔ بھاٹی گیٹ کے باہر اس چھوٹی سی نہر کے آثار آج بھی ہیں۔ جو اب ایک گندےنالے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس پختہ نہر کے کنارے پر کبھی عورتیں ڈنڈے اور دیسی صابن (یہ وہ دیسی صابن ہوتا تھا جو بعض لوگ اپنے گھروں میں تیار کرتے تھے اور یہ دیسی صابن جو ہاتھ سے تیار کیا جاتا تھا دکانوں پر فروخت ہوتا تھا۔ آج بھی لاہور کینٹ میں ایک ایسی ہی دیسی صابن بنانے کی فیکٹری ہے) کے ساتھ کپڑے کوٹ کوٹ کر دھوتی تھیں کیا خوبصورت نظارہ ہوتا تھا۔

ابوالاثر حفیظ جالندھری نے کہا تھا؎

وہی لاہور ہے وہی در و بام

وہی ہنگامۂ خواص و عام

کسی زمانے میں لاہور کے کالجوں میں بھی مختلف کھیلوں کے فروغ کے لئے مخصوص نشستیں (سیٹیں) ہوا کرتی تھیں۔ جن پر کم نمبر والے بچوں کو صرف کھیلوں میں اچھی پوزیشن رکھنے پر داخلہ دیا جاتا تھا۔ کسی زمانے میں اس کا کوٹہ 10فیصد تھا۔ جس میں کھیلوں کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیاں بھی شامل تھیں۔اب یہ کوٹہ صرف دو فیصد رہ گیا ہے۔ کالجوں میں آج بھی ریسلنگ کی بنیاد پر داخلے ہوتے ہیں اور انٹر کالجیٹ ریسلنگ کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ لاہور کے کئی کالجوں نے قومی کرکٹ ٹیم، ہاکی ٹیم، اسکواش، بیڈ منٹن، کشتی رانی، ریسلنگ، ٹیبل ٹینس، لان ٹینس، والی بال، تیراکی، باکسنگ اور دیگر کھیلوں کے لئے بہترین کھلاڑی فراہم کئے۔ آج یہ نرسری تباہ ہو چکی ہے۔ لاہور میں اب وہ روایات اور وہ ہنگامے نہیں رہے جس کا ذکر حفیظ جالندھری نے اپنی ایک طویل نظم میں کیا تھا۔ اب لاہور بالکل بدل چکا ہے۔

کسی زمانے میں لاہور کے چائے خانے، قہوہ خانے بعض ریسٹورنٹس اور ہوٹل محض چائے پینے کی جگہیں نہیں تھے بلکہ وہاں ادیب، شاعر، دانشور، ڈرامہ نگار، موسیقار، گیت کار بیٹھ کر دنیا کے ہر موضوع پر بحث کیا کرتے تھے۔ یہ چائے یا قہوہ خانے علم و ادب کے مراکز اور نرسریاں تھے۔ جہاں سے کئی تناور درخت پیدا ہوئے۔

انگریزوں نے ولایت اور برصغیر خصوصاً لاہور میں جو چائے خانے قائم کئے تھے ان کا بنیادی مقصد محض وقت گزاری نہیں تھا بلکہ وہ شاعروں اور ادیبوں کے گڑھ تھے۔ لندن میں ہمیں پہلے قہوہ خانے کی تاریخ 1659کے آس پاس ملتی ہے۔ لاہور کی کئی ادبی محفلیں، قہوہ خانوں میں سجا کرتی تھیں۔ یہ بات یاد رہے کہ قہوہ خانوں اور چائے خانوں میں ایک واضح فرق تھا۔ قہوہ ترکی سے آیا تھا۔ جبکہ چائے انیسویں صدی میں آئی تھی۔ جس نے قہوہ خانوں کی جگہ لے کر چائے خانے قائم کر دیئے۔ اگرچہ لاہور میں کشمیری چائے کی دکانیں بھی تھیں مگر کشمیری چائے زیادہ تر سردیوں کے دنوں میں لوگ پیتے ہوتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ملک ایاز (محمود و ایاز والا) کے مقبرے رنگ محل کے باہر کیا زبردست کشمیری چائے اور باقر خانی ملا کرتی تھی۔ کیا ظالم ان کا ذائقہ ہوتا تھا۔ہم اکثر شام کو وہاں جاکر یہ کشمیری چائے پیا کرتے تھے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین