یہ جمعہ 6نومبر کی بات ہے اس شام میں اور میری بیگم ہم مسعود مفتی صاحب کے ہاں عشائیے پر مدعو تھے۔ خوب گپ شب رہی۔ ادب، سیاست اور انسانی رویوں پر بات ہوئی۔ میاں بیوی دونوں ہمیں بیرونی گیٹ تک الوداع کرنے آئے ۔ ان کے خوب صورت گھر میں ایک ایک چیز جیسے سلیقے سے اپنے مقام پر دھری تھی۔ دروازے کے پاس ہی پیانو پڑا تھا ۔ عین اس کے اوپر ایک تصویر تھی ۔ جس میں دونوں میاں بیوی اور اُن کے بیٹے تھے۔ جو باہرتھے۔‘‘
ہم دروازے سے باہر نکلے۔ وہ ہم سے پہلے دروازے سے باہر تھے ۔ میں نے کہا:’’ مفتی صاحب ،آپ یہیں رُک جائیں باہر خنکی زیادہ ہے ۔‘‘ کہنے لگے:’’ نہیں ٹھیک ہے ۔‘‘ یہ ہماری آخری ملاقات تھی ۔ دو دن بعد فون پر اُن سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا: ’’ دودن سانس کی بہت تکلیف رہی ،مگر اب ٹھیک ہوں۔‘‘ اگلے روز اُن کا نمبر میرے سیل کے ڈسپلے پر جھلک دینے لگا تو میں نے سمجھا کہ مفتی صاحب ہوں گے، مگر فون سے ایک نامانوس آواز اُبھری :’’ بہت تکلیف دہ خبر ہے۔ بشریٰ صاحبہ ( بیگم مفتی )نے کہا ہے۔ آپ مفتی صاحب کے دوست ہیں پہلے آپ کو اطلاع دوں۔ مفتی صاحب اب دنیا میں نہیں رہے۔‘‘ ۔۔۔ ’’جی کیا کہا ۔۔۔مسعود مفتی؟‘‘ ۔۔۔’’ جی ، مسعود مفتی نہیں رہے ۔‘‘ ۔۔۔ میں ہکا بکا سیل فون کو دیکھتا رہا ۔ اس کاڈسپلے بجھ گیاتھا۔ وقت جیسے ٹھہر گیا تھا ۔
۱۰ جون ۱۹۳۴ کو پیدا ہونے اور ۱۰ نومبر ۲۰۲۰ کو ۸۶ برس کی عمر میں وفات پانے والے مسعود مفتی، لگ بھگ گزشتہ ساٹھ باسٹھ سال سے ادب سے وابستہ رہے اور آخری سانس تک کاغذ قلم سے رشتہ قائم رکھا۔ پاکستانیت اُن کا مسئلہ تھی ۔ اکہتر میں مسعود مفتی ڈھاکہ میں اور جنگی قیدی بنے ۔ اس نے ان کے حوصلے ڈھائے نہیں تاہم قومی درد اور بڑھا دیا تھا۔ جو کچھ ہو رہا تھا جس طرح ہوتا رہا تھا اس پر وہ کڑھتے اور اسے قومی تناظر میں اپنی تحریروں کا حصہ بناتے رہتے ۔ افسانہ ان کی ترجیح رہی مگر جو بات افسانے میں نہ کہہ پاتے رپورتاز میں لکھ دیتے۔ کہیں کہیں افسانے اور رپورتاز کو بہم کرکے بات کہنے کا سلیقہ تراش لیتے۔ پاکستان ٹوٹنے کے مناظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اورجو دیکھا،اسے قوم کی امانت سمجھ کر لکھ دیا ۔ ان کی ہر کتاب قومی ادب کا ایک باب،’’چہرے‘‘،’’ہم نفس‘‘، ’’چہرے اور مہرے‘‘، ’’پتھر اور پھول‘‘۔ ’’ محدب شیشہ‘‘، ’’رگ سنگ‘‘، ’’ریزے‘‘، ’’سالگرہ‘‘، ’’توبہ ‘‘ اور ’’وقت کی قاش‘‘ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں جب کہ’’ کھلونے‘‘ ایک ناول۔ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے ۔ یادداشتیں الگ سے مرتب کیں۔
اس نوع کی کتب میں ’’سرراہے‘‘،’’تکون‘‘،’’لمحے‘‘ اور ’’جھرنوں سے کرنیں‘‘ شامل کر لیجئے ۔ ایک بھرپور ادبی زندگی گزاری اور ابھی لکھ رہے تھے کہ دل دھڑکنا بند ہو گیا۔ بھابی بتا رہی تھیں وہ کچھ بے چینی محسوس کر رہے تھے ۔ بار بار سینے کی طرف ہاتھ لے جاتے تو پوچھنے پر کہنے لگے۔ ’’ کچھ نقاہت محسوس ہو رہی ہے۔ ‘‘۔۔۔’’چلیے اسپتال لے چلوں۔‘‘۔۔۔’’نہیں، ابھی نہیں۔ ذرا سنبھل لوں پھر چلیں گے۔‘‘۔۔پھر وہ صوفے پر دراز ہو گئے تھے۔ بھابی کی آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں۔’’ مجھے کیا پتا تھا ۔ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ میں نے اُن کے سینے کو ملنا شروع کر دیا ۔ انہوں نے درد کی شکایت کی نہ کچھ اور کہا، بس آنکھیں بند کر لیں۔اسپتال لے گئے تو بتایا گیا کہ وہ جا چکے تھے۔‘‘
پاکستان ٹوٹنے کے دُکھ کو مسعود مفتی کے ہاں مجسم اذیت بنتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے سامنے بنتے اور ٹوٹتے پاکستان اور قومی حمیت کے برف کے تودے میں تبدیل ہو جانے کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ ان سچے واقعات کو اگر وہ یوں نہ لکھتے جیسے کے وہ تھے تو ان کا کلیجہ بہت پہلے ہی پھٹ گیا ہوتا۔ مسعود مفتی نے سچ کے کھرے پن اور اپنے کلیجے کو پھٹنے سے بچالینے کا یہ حیلہ کیا تھا کہ اپنے افسانوں میں بھی حقیقت نگاری کے چلن کو محبوب کرلیاتھا۔ ادب میں افسانہ ‘ صحافت میں حالات حاضرہ اور سیاست میں چوں کہ جمہوریت ان کی ترجیحات تھیں لہٰذا تینوں کی طرف بسا اوقات ایک ہی جست میں بڑھنا چاہتے تھے ۔ سفر اور تبدیلی مکان ان کی زندگی کا ایک اور اہم تجربہ تھا ۔
وہ قدیم مصریوں کی طرح کہانی پھیلانے اور اسے رپورتاژ سا بنالینے پر قادرتھے ، یہی سبب ہے کہ انہیں طویل کہانی لکھنے میں لطف محسوس ہوتا تھا۔میں نے جب بھی مسعود مفتی کی بابت سوچنا چاہااس سے کہیں زیادہ سفاک حقیقت نگار مورخ سامنے آکھڑا ہو، حتی کہ ۱۹۷۱ء سے پہلے چھپنے والی تخلیقات کو پڑھ کر بھی میرے باطن کے کینوس پر بنی مسعود مفتی کی مجموعی شخصیت کے آہنگ میں کوئی فرق نہ آیا، کہ مجھے تو یوں لگتا ہے اس طرح قومی ملی اور خالص اعتقادی رنگوں سے بنا ہوا مفتی اور بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔خالص حقیقت نگار بن جانا کوئی عیب نہیں ہے بل کہ ایک چلن ہے جو کوئی فکشن نگار اپنے لیے منتخب کرتا ہے ۔ حقیقت نگاری کے پہلو بہ پہلو کچھ بنیادی‘ تنازعات اور سوالات تھے جو ہمارے اس افسانہ نگار کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔
مسعود مفتی کے ا با نہایت بااصول ‘راسخ العقیدہ اور دین دار مسلمان تھے۔خداکی ذات پر مکمل ایقان‘ انہیں پرکھوں سے ملا تھا جو تقدیر کے باب میں جدید تر زندگی میں مادی فلاح کے تصور سے متصادم ہو کر ایک الجھتا ہوا سوال بن گیاتھا ۔ اپنے افسانوں کے پہلے ہی مجموعے میں وہ مذہب کو دوحصوں میں تقسیم کرتے نظر آئے ۔ ایک وہ جو اس افسانہ نگار کے والد کی شخصیت کو ان کے لیے روشنی کا مینار بنا گیا تھا اور دوسرا وہ جسے ‘ جاہ پسند حاکموں اور ریاکار عالموں نے ملاوٹ کرکے گدلا کر دیاتھا ۔ وہ یہ سوالات اٹھاتے کہ آخر اس زندگی کو مشکل کون بناتا ہے ؟ خدا کی لوح محفوظ؟ ‘ مذہب کے ٹھیکیدار ؟‘ تاہم وار سماجی نظام؟ برے حاکم‘ اقدار اور قوانین کی پامالی ‘ دوسرے لوگ یا پھر ہم خود ؟ ۔
ایک کتاب ’’سالگرہ‘‘ کے آغاز میں بھی یہی سوالات اسی شدت سے اٹھائے گئے تھے۔’’ایک مذہب وہ ہوتا ہے جو خدا اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے۔ مگر اس کی شکل تھوڑا ہی عرصہ قائم رہتی ہے ۔ دوسرا مذہب وہ ہوتا ہے جو روایت کے تودوں کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ سیاسی اور روحانی پیشوا ،اسی نقل کو جبر کے ذریعے منواتے ہیںاور عام انسان کی ساری زندگی اصل کے نام پر نقل کی تعمیل میں گزرتی ہے۔‘‘مسعود مفتی کو نقل نہیں اصل درکارتھی ۔ انہیں وہ ایک خدا چاہیے تھا جو تقدیر لکھتا ضرور تھا مگر انسان کے ہاتھ میں اسے بدل دینے کے لیے محنت کا پھاوڑا تھما دیتاتھا ۔ وہ خداجواپنے نام پر کسی خون ریزی کو پسند نہیں کرتاتھا، تاہم ظالم کی اطاعت کرنے والوں کو بھی بغاوت پر اٹھ کھڑے ہونے کے کچوکے لگاتا رہتا تھا۔
مسعود مفتی کے چار بیٹوں میں سے دوبیٹے باپ کی چارپائی کو کندھا دینے پہنچ گئے تھے ۔دو نہ آ سکے ۔ ابھی جنازہ اُن کی قیام گاہ سے نہ اٹھایا گیا تھا کہ مجھے کشور ناہید کا فون آیا۔ وہ مسعود مفتی کی چارپائی اٹھنے سے پہلے وہاں آنا چاہتی تھیں۔ میں انہیں لے آیا تویاسمین نے بتایا کشورناہید نے آتے ہی کہا تھا: ’’ مسعود مفتی اُن سے کہا کرتے تھے ۔ہم دونوں میں ریس لگی ہوئی ہے دیکھیں پہلے کون جاتا ہے ۔
مسعود مفتی اس بار جیت گئے۔‘‘ جنازہ گاہ پہنچے تو صفیں باندھتے باندھتے افتخار عارف نے کہا : ’’اچھے بھلے تھے یہ اچانک کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا:’’ دِل کا دورہ۔‘‘ افتخار عارف نے ماضی میں جھانک کر کہا : ’’کوئی چالیس سال پہلے اُن کا بائی پاس ہوا تھا ۔ تب میں لندن میں تھا مشتاق یوسفی اور میںاسپتال تیمار داری کے لیے جایا کرتے تھے۔ فیض احمد فیض کے بائی پاس کے سولہ برس بعد ان کے دل کا دورہ جان لیوا ہوا تھا اور مفتی صاحب کا چالیس برس بعد ۔‘‘ہمارے پاس اب لفظوں اور افسوس کے سوا کچھ نہ تھا، تاہم وہاں موجود ہر شخص گواہی دے رہا تھا کہ ایک سچا اور کھرا پاکستانی ادیب چلا گیا تھا۔