28 ہزارمربع میل پر پھیلا گلگت بلتستان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان اہم جغرافیائی پوزیشن پر واقع قدرتی وسائل سے مالا مال خطّہ ہے،جو زمینی راہ داری کے ذریعے پاکستان کوعوامی جمہویہ چین سمیت وسط ایشیائی ممالک سے ملاتا ہے۔ الحاقِ پاکستان کے بعد گلگت بلتستان میں جو انتظامی و سیاسی اصلاحات کی گئیں، ان کی بتدریج ایک طویل تاریخ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1994ءمیں یہاں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے۔
بعد ازاں، 2009ء میں سابق صدر، آصف علی زرداری نے اس خطّے کو انتظامی سیٹ اَپ دیا اور صوبہ بنانے کی بھر پور کوشش کی، مگر کام یاب نہ ہو سکے۔ تاہم، 15 نومبر 2020ء کو اسی سیٹ اَپ کے تحت گلگت بلتستان میں تیسرے انتخابات ہوئے،جن میںگلگت بلتستان اسمبلی کے 24 میں سے 23 حلقوں میں 7 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرزمیں سے تین لاکھ سے زائد نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ الیکشن کمیشن ،گلگت بلتستان کی جانب سے 23 حلقوں میں1,141پولنگ اسٹیشنز قائم کیےگئے ، جن میں سے 418 پولنگ اسٹیشنز حسّاس ترین اور 311 حسّاس قرار دئیےگئےتھے۔
ان تمام پولنگ اسٹیشنز پر 13ہزار سے زائدسیکیورٹی اہل کار تعیّنات کیے گئے ۔ تاہم، حفاظتی انتظامات سنبھالنے کے لیے فوج کی خدمات حاصل نہیں کی گئیں،ان کی جگہ گلگت بلتستان اسکاؤٹس، بلوچستان، پنچاب اور خیبر پختون خوا پولیس نے سیکیورٹی فراہم کی ۔ واضح رہے،شدید سردی اوربرف باری کے باوجود ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 60فی صد رہا، جب کہ انتخابی مہم سے لے کرنتائج کے مراحل تک مجموعی طور پرماحول بھی پُر امن رہا۔ تاہم انتخابی نتائج میں تاخیر اور دیگر وجوہ کی بنا پر ضلع دیامر، غزر، گانچھے اورا سکردو میں چند نا خوش گوار واقعات ضرورپیش آئے ،لیکن مجموعی طور پر حالات قابومیں رہے۔ اس مرتبہ انتخابات میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا یعنی خواتین کی بڑی تعداد ووٹ دینے آئی۔
اسکردو اور غزر میں خواتین رہنماؤں نے دیگر خواتین کے ساتھ مل کر اپنی انتخابی مہم بھی چلائی، جب کہ ایسی خواتین بھی دیکھنے میں آئیں، جو مختلف علاقوں میں خواتین کے سامنے ووٹ ڈالنے کی اہمیت اُجاگر کرتی رہیں۔تاہم، 7حلقوں کے ریٹرننگ آفیسرز کی جانب سے اپنے حلقوں میں حقِ رائے دہی استعمال کرنے والی خواتین کی شرح نہیں بتائی گئی ، جب کہ ضلع دیامر کے حلقہ جی بی اے 16اور جی بی اے 18میں خواتین ووٹرز کی شرح 10فی صد سے بھی کم رہی، باقی حلقوں میں ریٹرننگ آفیسرز کی جانب سے جاری کیے گئے فارم 47 میں ووٹ کاسٹ کرنے والی خواتین کی شرح 54 فی صد اور مرد ووٹرز کی شرح 60 فی صد تک رہی،جب کہ ریٹرننگ آفیسر زکی جانب سے جی بی اے،8اور 9سمیت جی بی اے 12،13، 15 اور 17 میں صنفی بنیاد پر الگ الگ ٹرن آؤٹ نہیں دیا گیا، جہاں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 9 (1) کا اطلاق ہوسکتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کروائی جاسکتی ہے۔
گلگت بلتستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (نون)سمیت متعدّد سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حصّہ لیا ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی مہم کا آغازسیاچن کے سرحدی گاؤں سکسہ سے کیا اور 21 اکتوبر سے 13 نومبر تک خود تمام حلقوں میں جاکر اپنی پارٹی امیدواروں کے حق میں مہم چلائی۔گوکہ بھر پور انتخابی مہم چلانے کے باوجود بھی وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکے، لیکن ان کی موجودگی کے باعث حکمران جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے سے محروم رہ گئی۔
فتح دلوانےوالوں نے بھی الیکٹیبلز کے بجائے آزاد امیدواروں کو جِتوانے میں خیر جانی۔ تب ہی 7آزاد امیدوار وفاداریاں تبدیل کر کے حکمران جماعت میں شامل ہونے والے الیکٹیبلز کو ہرانےمیں کام یاب ہوگئے، جن میں زیادہ ترامیدوار تحریکِ انصاف سے وابستہ تھے اورانہوں نے ٹکٹس نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصّہ لیا تھا۔
تادمِ تحریر انتخابی نتائج کے مطابق تحریکِ انصاف نے 75 ہزارسے زائد ووٹ لے کر 9نشستوں پر اور پیپلز پارٹی نے 70 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے تین نشستوں پر کام یابی حاصل کی ہے۔ تحریکِ انصاف، ضلع گانچھے سے ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکی، جب کہ پیپلز پارٹی غیر متوقع طور پربلتستان ڈویژن سے صرف ایک ہی سیٹ جیتنے میں کام یاب ہوئی، مگرپیپلز پارٹی نے تین نشستوں پر کانٹے دارمقابلہ کیااور دوسری پوزیشن پررہی۔
دوسری جانب، وفاقی حکومت کے پاس گلگت بلتستان کے عوام کو مطمئن کرنے کے لیےکچھ نہیں تھا، قائم مقام وزیرِ اعلیٰ بھی پہلے ہی وزیر اعظم کو پارٹی کی کم زور پوزیشن سے متعلق آگاہ کر چُکے تھے، اس لیے وفاقی حکومت نے دیگر جماعتوں کے الیکٹیبلز کو وفاداریاں تبدیل کرنےپر مجبور کر کے ایک تیر سے دوشکار کیے۔
اس دوران وفاقی وزیرامورِ کشمیر،علی امین گنڈا پور کی جانب سے نہ صرف الیکشن ایکٹ کی خلاف وَرزی کی گئی، بلکہ انہوں نے جی بی اے 7 سے تحریکِ اسلامی کے امیدوار کو تحریک ِانصاف کے اُمیدوار کے حق میں دست بردار کروانے کے لیےمذکورہ امیدوار کو وزارتِ امورِ کشمیر میں امورِ گلگت بلتستان کے لیے مشیر مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا۔ نیز، دو مذہبی جماعتوں کی با قاعدہ حمایت اور تعاون کے بعد ہی سابق وزیرِ اعلیٰ، مہدی شاہ کو ہرانے میں کام یاب ہو سکے۔
یہاں تک کہ لا تعداد منصوبوں کے اعلان اور حکومتی مشینری کے بے دریغ استعمال کے باوجود بھی بلتستان ڈویژن سے صرف تین نشستوں پر کام یابی حاصل کر سکے۔وفاقی وزرا ،علی امین گنڈا پور، مراد سعید اور معاونِ خصوصی، سیّدذوالفقار عباس بخاری نےانتخابات پراثر انداز ہونے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ وہ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں مختلف انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے رہے اور اپوزیشن جماعتوں پر فوج اور ریاست کے خلاف بیانیہ اپنانے کے الزامات بھی عائد کرتے رہے۔ ان وفاقی وزرا کی جانب سے لا تعداد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیاہے۔ علی امین گنڈا پور نے تواپنے خطاب میں کہا کہ’’ وزیر اعظم نے گلگت بلتستان کو مُلک کا پانچواں عبوری صوبہ بنانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور سی پیک میں بھی اس صوبےکو بھر پور حصّہ دیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے یاد گارِ شہدا پر انتخابی جلسے سے خطاب میں وفاقی ملازمتوں، با لخصوص سول سروسزمیں جی بی کا کوٹا ایک فی صدسے بڑھا کر 5فی صد کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ ذوالفقارعباس بخاری نے گلگت بلتستان میں 10 سیاحتی زون قائم کرنے اور بیرونِ ملک روزگار دینے کا اعلان کیا،تو مراد سعید نے کے کے ایچ کی تعمیر سمیت نئی سڑکوں اور دریائے سنھ پر پُلوں کی تعمیر اور متاثرینِ کے کے ایچ کو جلد معاوضہ ادا کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ وفاقی حکومت انتخابی مہم سے لے کر انتخابی نتائج کی تشکیل تک ہر ہر مرحلے پراثر انداز ہونے کی کوشش کرتی نظر آئی،جب کہ الیکشن کمیشن گلگت بلتستان ،وفاقی وزیر امورِ کشمیرو گلگت بلتستان کی الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی اور انتظامیہ کے ذریعے اثر انداز ہونے کی شکایت پر فوری کارروائی کرنے میں ناکام رہا۔
دوسری جانب، پیپلز پارٹی کے چیئرمین ، بلاول بھٹّو زرداری اور جیالوں نے گلگت ٹو میں نتائج کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش بھی ناکام بنادی۔ انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار،سعدیہ دانش کو قتل کی دھمکی دے کر اپنے حلقے میں انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی۔ ضلع غزر کے ایک حلقے کے پولنگ اسٹیشن سے ایک جماعت کے کارکن زبردستی پولنگ بکس لے گئے،جب کہ کئی پولنگ اسٹیشنز میں میڈیا ٹیمز اور آبزرورزکو گنتی کے مراحل تک دیکھنےکی اجازت نہیں دی گئی۔ واضح رہےکہ کئی پولنگ اسٹیشنز میں عوامی ہجوم کے باعث کورونا وائرس کے ایس او پیز یک سر نظر انداز کیے گئے۔
ضلع گانچھے اور ضلع دیامر میں خواتین کی جانب سے ایک سے زائد بار ووٹ ڈالے جانے کی شکایات بھی موصول ہوئیں۔پھر الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی فہرستوں کی تیاری میں کافی غلطیاںدیکھنے میں آئیں ،جیسےلسٹ میں پانچ سال کے دوران وفات پانے والوں کے نام بھی شامل تھے اور کئی لوگوں کے نام اپنے محلّے کے پولنگ اسٹیشنز میں سِرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ا سکردو کے مختلف حلقوںمیں انتخابی عملے کو رات گئے پولنگ اسٹیشنزروانہ کیا گیا، جب کہ تحصیل گلتری میں برف باری کے باعث راستے بند ہوگئے اور پولنگ کا عملہ کئی روز تک وہاں پھنسا رہا۔
لیکن قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ شدید سردی، برف باری اور تما م تر انتظامی کوتاہیوں کے با وجودلوگوں نےووٹ ڈال کر جمہوری نظام کام یاب بنانے میں اپنا حصّہ ڈالااور قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھرپور اظہار کیا ۔تاہم، انتخابی نتائج کے منظرِ عام پر آنے کے بعد مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے نتائج مسترد کر دئیے اور الیکشن کمیشن ،گلگت بلتستان کے کردار کوجانب دارنہ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت پر دھاندلی کے الزمات لگائے۔اس حوالے سے سیاسی مبصّرین نے بھی پیپلز پارٹی کے ووٹ چرائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ۔ تاہم، انتخابات 2020ء کا بہترین پہلو یہ تھاکہ انتخابی مہم کےدوران کسی بھی سیاسی جماعت کو مہم چلانے سے نہیں روکا گیا۔
اسکردو میں مسلم لیگ (نون )کے جلسے سے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے لندن سے ٹیلی فونک خطاب کیا، جب کہ ان کی بیٹی، مریم نواز نے،شاہد خاقان عباسی اور سینیٹر پرویز رشید کے ہم راہ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں بھر پورانتخابی مہم چلائی، جسے عوام کی بڑی تعداد میں شرکت نے کام یاب توبنایا، لیکن اُن کے امیدواروں کو ووٹ نہ دےکر صوبائی حکومت کی پانچ سالہ کار کردگی پر عدم اعتماد کا اظہاربھی کر دیا۔ واضح رہے کہ 23 حلقوں میں مسلم لیگ (نون) کے صرف دو امیدوار ہی کام یاب ہوسکےہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام کئی برس سے صوبائی خود مختاری مانگ رہے تھے، لیکن ستّر سال سے یہی کہا جا رہا تھا کہ اس سے جمّوں وکشمیر سے متعلق ہمارا کیس کم زور ہوجائے گا۔ حالاں کہ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ ہم روزِ اوّل ہی سے آزاد جموں وکشمیر کو ہر لحاظ سے پاکستان کا مکمل حصہ بناتے، انہیں ہر طرح کی مالی ، سیاسی اور انتظامی خود مختاری دیتے تاکہ بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیریوں کو ترغیب ملتی لیکن ستر سال کی مجرمانہ غفلت کے بعد اب جب کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر ہڑپ لیاتو ہمیں گلگت بلتستان کو صوبے کا اسٹیٹس دینے کا خیال آرہا ہے، وہ بھی انتخابات کے دِنوں میں ۔
نتیجتاً،بنا ہوم ورک ، کشمیری اور مُلکی قیادت کے ساتھ مناسب صلاح مشورہ کیے بغیر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا گیا ،جس کی بہر حال آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت نے مخالفت کی۔ حالیہ انتخابات کااہم ترین نعرہ، پانچویں صوبے کا اعلان اور روزگار فراہمی کا تھا، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف توگلگت بلتستان کو پانچواں عبوری صوبہ بنانے پر متفق نظر آتے ہیں ،لیکن مسلم لیگ (نون) کی رہنما مریم نوازنے اس نعرے سے متعلق اپنے جلسوں میں کوئی واضح اور دو ٹوک بیان نہیں دیا۔ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اب کی بار گلگت بلتستان کو پانچواں عبوری صوبہ بنانے سے متعلق سنجیدہ نظر آرہی ہے، لیکن اس اہم فیصلے سے متعلق قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کوئی ٹھوس عملی اقدامات ہوتے نظر نہیں آرہے۔
پیپلز پارٹی نے 2018 ء کے انتخابی منشور میں گلگت بلتستان کو پانچواں عبوری صوبہ بنانے اور خطّے کے قدرتی وسائل پر مقامی لوگوں کی ملکیت تسلیم کرنے کی شِق پہلے ہی شامل کی ہوئی ہے اورتاریخی لحاظ سے بھی گلگت بلتستان سے متعلق اہم ترین سیاسی اور انتظامی فیصلے پیپلزپارٹی ہی کے دَورمیں ہی کیے گئے ، جس سے یہ واضح ہے کہ یہ جماعت اہم فیصلے کرنے کی جرأت بھی رکھتی ہے اور قومی سطح پر اتفاق رائے کے ساتھ اہم فیصلے منوانے کی صلاحیت بھی،لیکن حالیہ انتخابات کے نتائج سے لگتا ہے کہ اس فیصلے پرعمل درآمد کے لیے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا بہت مشکل ہوگا ۔ ایسا لگتا ہے کہ صوبہ مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتیں زیادہ شدّت کے ساتھ اس اہم قومی مسئلے کی مخالفت کریں گی۔
اُمید کی جارہی تھی کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے فیصلے کی دونوں حمایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو سادہ اکثریت ضرورملے گی یا پھر دونوں جماعتوں کی مشترکہ حکومت بنے گی، لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی، نہ پاکستان تحریکِ انصاف کواور فی الحال جو حالات ہیں، ان میں دونوں جماعتوں کا اتحاد کرنا بھی مشکل، بلکہ ناممکن ہی ہے۔
بہرحال، انتخابی نتائج کے بعد حکومت بنانے کے لیے دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے نہ صرف جوڑتوڑ شروع ہو ئی بلکہ آزاد امیدواروں کو اہم وزارتوں کی پیش کش بھی کر دی گئی ۔تا دمِ تحریر، تحریکِ انصاف کے ساتھ آزاد امیدواروں کے الحاق کے بعد ماضی کی طرح گلگت بلتستان میں وفاق ہی کی حکومت بنتی نظر آرہی ہے۔
تاہم، سیاسی مبصّرین کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں اگر پی ڈی ایم کی حکومت بنتی ،تواسے پانچواں عبوری صوبہ بنانے سے متعلق قومی ہم آہنگی پیدا کرنے میں آسانی ہوتی، کیوں کہ پی ڈی ایم کی صوبائی حکومت میں تینوں بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں، جب کہ وفاق میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے ،جو صرف اپنے اتحادیوں کی حمایت ہی حاصل کر سکے گی۔ گلگت بلتستان کے عوام کے مطابق انتخابی مرحلے سے زیادہ اہم مرحلہ حکومت سازی کا ہے۔ اب بس دیکھنا یہ ہے کہ گلگتی عوام سے کیے وعدے اور انتخابی نعرے کس حد تک وفا ہو پاتے ہیں۔