ڈگری سب ڈویژن کے ساتھ ہی ضلع بدین کا شہر ٹنڈو باگو واقع ہے۔ ڈگری سے ٹنڈو باگو جاتے ہوئے درمیان میں ایک چھوٹا سا گاؤں "کھڈارو" آتا ہے۔ اس گائوں میں موجود محبت کی نشانی "صاحب محل" اپنی خوبصورتی اور بناوٹ کے باعث پورے سندھ میں مشہور ہے۔ مقامی باشندے اسے تاج محل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ٹنڈو باگو سے یہ محل 14 کلومیٹر دور شمال کی طرف ہے۔ ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سفر کرتے ہوئے 10 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے پر محل کے گنبد نظر آتے ہیں۔
سندھ کے حکمراں خاندان کے ایک فرد میر حاجی خدا بخش تالپور نے یہ محل اپنی بیوی 'صاحب خاتون کی محبت میں تعمیر کروایاتھا اور اس کا نام بھی اپنی شریک حیات کے نام پر "صاحب محل" رکھا ۔میر صاحب جو سندھ کے بڑے زمیندار تھے، انہوں نے اپنی بیوی کو جنون کی حد تک چاہتے تھے، ان کی فرمائش پر ایک خوب صورت محل بنوانےکا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے آگرہ کا سفر کیا اور محبت کےعظیم شاہ کار تاج محل کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر ٹنڈو باگو واپس آئے۔
اس زمانے کے حیدرآباد کے مشہور ماہر تعمیرات فیض محمد سلاوٹ سے اس محل کا نقشہ تیار کروایا۔تعمیراتی کام میں استعمال ہونے والا لوہا، ٹیئر گارڈر اور فرنیچر برطانیہ سے منگوایا گیا تھا، جبکہ اینٹیں احمد آباد (انڈیا) سے آئی تھیں،لکڑی کا سامان برما اور سیمنٹ کراچی سے منگوایا گیا تھا۔
اس محل کی تعمیر میں استعمال ہونے والا مکمل سامان ہندوستان کے مختلف علاقوںکے علاوہ بیرون ملک سے منگوایا گیا تھا۔ اس دور میں سندھ کے لاڑ والے علاقوں میں ٹرانسپورٹ اور آمدورفت کی کوئی بھی سہولت موجود نہیں تھی اس لیے تعمیراتی سامان پہنچنے میں خاصی تاخیر ہوتی تھی۔اس سامان کی نقل و حمل کے لیے دو طریقے استعمال کیے گئے۔ پہلے ریل گاڑی کے ذریعے حیدرآباد لایا جاتا تھا ، وہاں سے بدین کے قریب تلہار ریلوے اسٹیشن تک پہنچتا تھا۔ تلہار سے بیل گاڑیوں کے ذریعے ٹنڈو باگو لایا جاتا تھا۔سامان لانے کا دوسرا اہمذریعہ گونی پھلیلی نہر تھی جس میں بھاپ کی مدد سے کشتیاں چلتی تھیں۔
تعمیراتی سامان حیدرآباد سے مشہور گھاٹ، جمالی پھڑڈو پر پہنچتا اور وہاں سے بیل گاڑیوں پر لاد کر یہاں لایا جاتاتھا۔محل کے تعمیراتی کام کا آغازفیض محمد سلاوٹ کی زیر نگرانی ، 1923ء میں ہوا ،اور1947ء میں مکمل ہوا۔اس کی تعمیر میں 24سال کا عرصہ لگا اور چالیس لاکھ روپے سے زیادہکا خرچہ آیا تھا۔ جب محل بن کر تیار ہوگیا تو لوگ سندھ کے اس خوب صورت شاہ کار کو دیکھنے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے جس کی وجہ سے اس کے حسن کے چرچے سارےزمانے میں پھیل گئی۔
اسے روشن کرنے کے لیے جنریٹر کا استعمال کیا گیا۔محل کے مرکزی دروازے کی پیشانی پر سنگ مرمر کے سفید پتھر پر ’’صاحب محل 1947 ‘‘لکھا ہوا ہےجس کےنیچے ترازو بنا یا گیا ہے۔1947 میں یہ محل بن کر مکمل ہوا اور اسی برس پاکستان معرض وجود میں آیا۔ محل کی تعمیر مکمل ہونے کے آٹھ سال بعد میر خدا بخش تالپور کا انتقال ہوگیا۔
1999ء میں بدین میں آنے والے سمندری طوفان اور بارشوں نے محل کو کافی نقصان پہنچایا۔ ڈگری کے دانشور سیاسی و سماجی شخصیت "کامریڈ مصطفی رضا" کی قیادت میں ڈگری کے سینئر صحافیوں کی ٹیم جس میں راقم الحروف بھی شامل تھااس محل کا مطالعاتی دورہ کیا تھا۔ اس وقت یہ محل غیر آباد اور ویران پڑا تھا۔ صحافیوں کی ٹیم نے اس ویران محل کے کونے کونے کا جائزہ لیا اور محکمہ قدیم آثار کو محل کی مخدوش حالت کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی۔
اب اس محل کی رینوویشن کا کام جاری ہےکا کہنا ہے کہ محل کی ضروری تعمیر و مرمت کا کام مکمل ہونے کے بعد اس تاریخی عمارت کو عام شہریوں کے لئے بھی کھول دیا جائے گا تاکہ وہ وادی مہران میں تعمیر ہونے والے محبت کے اس عظیم شاہ کار کو دیکھ سکیں۔ ہندوستان میں واقع تاج محل سے صاحب محل شان و شوکت میں کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔