• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے مندرجہ ذیل پیغام موصول ہوا، جو ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، سرکاری افسروں، فوجیوں بلکہ ہر شہری کو پڑھنا چاہئے، شاید کہ ہم جاگ جائیں اور اپنی آخرت بچا سکیں!

’’اسلام علیکم و رحمتہ ﷲ و برکاتہ

امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ دل کا درد آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔ میں ایک ریٹائرڈ چارٹرڈ سول انجینئر ہوں جس نے 35سال مشہورِ زمانہ بین الاقوامی امریکی تعمیراتی کمپنی میں دنیا کے مختلف بڑے پروجیکٹس کی تکمیل میں گزارے ہیں اور پھر برطانیہ میں اپنی کنسلٹنگ کمپنی میں ایک نام کمایا، الحمدللہ۔ میں چار صالح بیٹوں کا باپ ہوں جو سب نہ صرف حافظِ قرآن ہیں بلکہ اِس وقت برطانیہ میں اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے ﷲ نے جہاں یہ بڑا کرم فرمایا ہے کہ میں اپنے خاندان کے اِن تمام افراد جو اِس وقت مقبوضہ کشمیر میں سفاک ہندو کی غلامی میں بےبسی کی زندگی گزاررہے ہیں، میں ایک آزاد ریاست پاکستان میں پیدا ہوا، جو حرمین کے بعد سب سے محترم جگہ ہے کہ اُس کی بنیادوں میں اُن لاکھوں شہداء کا خون شامل ہے جنہوں نے کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر اِس مملکت میں ہجرت کی کہ یہاں قرآن کا نظام ہوگا لیکن قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک ہم اپنے اُن حکمرانوں سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں جو اپنے چھ فٹ جسم پر اسلام لاگو نہیں کر سکے اور اسلام کا نام لیتے ہوئے خوفزدہ ہیں جبکہ یہ کام مغرب میں پیدا اور پرورش پانے والے بچے اپنی بساط کے مطابق کررہے ہیں۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔

میرا دکھ یہ ہے کہ دنیاوی لحاظ سے انتہائی صاحبِ ثروت ہونے کے باوجود میں خود کو بہت تہی دست سمجھتا ہوں جب میں یہاں کے نوجوان بچوں کے جائز سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہوتا ہوں اور وہ مجھ سے اسلامی غیرت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ قیامت کے روز ہم اُن شہداء کو کیا جواب دیں گے جنہوں نے اِس امید پر اپنے عزیزوں کی شہادتوں کو قبول کیا کہ ہم بمثلِ مدینہ، ریاست میں جا رہے ہیں جہاں قرآن کی حاکمیت ہوگی اور ہر کسی کو انصاف ملے گا۔ آپ نے یقیناً ایک ہندو آئی ایس افسر کے ایل گابا (کنہیا لال گابا) کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’پیسِو وائسس‘‘ کا اردو ترجمہ ’’مجبور آوازیں‘‘ تو ضرور پڑھی ہوگی جس میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ تحریر کیا ہے کہ مشرقی پنجاب کے اَن گنت گائوں جہاں مسلمانوں کی آبادی تھی، خالی ہو چکے تھے اور وہاں کے ہزاروں کنوئیں مسلمان بچیوں کی لاشوں سے اٹے پڑے تھے۔ اور آج بھی دس ہزار سے زائد لاپتا مسلمان بچیاں ہندوؤں اور سکھوں کے بچے جن رہی ہیں۔ بعد ازاں اسی آئی ایس افسر نے اسلام کا مطالعہ کرنے کےبعد اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام بدستور ’’کے ایل گابا‘‘ یعنی خالد لطیف گابا رکھ لیا۔

انصار صاحب! کیا آپ نہیں سمجھتے کہ روزِ قیامت وہ اللہ کے سامنے ہمارا گریبان پکڑ کر فریاد کریں گے کہ یہ ہیں وہ ہمارے وارث جو ہماری بربادی کے ذمہ دار ہیں، تو ہم وہاں کیا جواب دیں گے؟ اِس جیسے کئی سوال ہیں جو یہاں میرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ پاکستان کہاں ہے جس کو آپ حرم کے بعد مقدس و محترم سمجھتے ہیں؟ ہم یہاں مغرب میں اپنے پیغمبرﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی پر مرمٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور اِسی سلسلے میں ہمارے درجنوں اعلیٰ تعلیم یافتہ بچے گرفتار ہو کر جیلوں میں چلے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر کیلئے یہاں کے کسی ادارے میں کام کرنے کے لئے نااہل قرار دے دیے جاتے ہیں۔ ہماری ہر حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو اپنا بہت بڑا سرمایہ سمجھتی ہے لیکن ہم جیسے دل جلے یہ بھی پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم نے ملک کے وزیراعظم کی یقین دہانی پر’’فارن اکاؤنٹس‘‘ کھولے تھے کہ ہم پاکستان کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر یہودی اداروں کی غلامی سے نکالنا چاہتے ہیں لیکن خود اُن سربراہوں نے ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد اپنے ڈھائی سو ملین ڈالر سے زائد کی رقوم کو تو ملک سے باہر بھیج کر محفوظ کر لیا لیکن ہمارے اکائونٹس پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے اُنہیں منجمد کر دیا اور بعد ازاں پاکستانی کرنسی میں اُن کی ادائیگی کرکے ہمیں خطیر نقصان پہنچایا لیکن اِس ظلم و ستم کے بعد ہم وہ خطا وار ہیں کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے بینکوں میں ’’فارن اکائونٹس‘‘ کھول رکھے ہیں اور مجھ جیسے سینکڑوں افراد ایسے ہیں جنہوں نے آج تک کبھی حوالے یا ہنڈی کے ذریعے اپنی رقوم کی ترسیل نہیں کی لیکن اب اربوں ڈالرزکی ’’ٹی ٹی‘‘ پاپڑ والوں اور اومنی گروپس کی سامنے آرہی ہیں۔ ملک میں چینی اور آٹا مافیاز سرگرم ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی دن رات کی محنت شاقہ سے بنائی ہوئی جائیدادوں پر قبضہ ہو رہا ہے اور ہماری عدالتیں بھی انصاف فراہم کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں بلکہ عدالتی نظام ہی اِس قدر گنجلک ہے کہ جائیدادوں کی مالیت سے زائد وہاں کے وکلاء فیسوں کی مد میں لے لیتے ہیں۔

مجھے آج اپنے کئی درجن کالمز اور آرٹیکلز پر شرمندگی ہو رہی ہے جو میں نے مشرف کے زمانے میں وکلاء تحریک کے لئے لکھے ۔ آپ نے اپنے ایک کالم میں ایک خاتون جج کی لرزہ خیز کہانی لکھ کر پاکستان میں رائج نظام کے چہرہ پر جو طمانچہ رسید کیا ہے، کیا اُس میں رتی بھر بھی تبدیلی آئی ہے؟ کسی بھی ملک میں وکلاء انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب طبقہ سمجھا جاتا ہے لیکن ہمیں یہ سزا کیوں مل رہی ہے؟ اِس کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہم نے اپنے رب سے ’’اوفو بالعہد‘‘ سے نہ صرف بغاوت کی ہے بلکہ اُس پر کبھی ندامت بھی محسوس نہیں کرتے۔ یہ سب ﷲ کے غضب کو بھڑکانے والے کام ہر روز کر رہے ہیں اور میرے رب کی یہ سنت ہے کہ وہ ایسی گمراہ قوموں کو اُن کے تمام وسائل کے ساتھ باعثِ عبرت بنا دیتا ہے اور میں اُس دن سے ﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔

میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایک اہم موقر ادارے میں ایسے قلمکار ہیں جن کی تحریروں کو ہم اپنے دل کے بہت قریب سمجھتے ہیں۔ خدارا اِن غافل حکمرانوں تک ہمارے یہ جذبات ضرور پہنچائیں کہ آج ہم سب کچھ ہیں لیکن پاکستان میں قرآن کو نافذ نہ کرکے ﷲ کی نظر میں سب سے بڑے مجرم ہیں۔ ہم مغرب کے گستاخوں کے خلاف مرمٹنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن اپنے ملک میں ﷲ کے باغیوں کو لگام ڈالنے کی بجائے تقسیم در تقسیم ہیں، کیا ہم کسی درجے میں ﷲ کے گستاخ نہیں؟ وماعلینا الاالبلاغ۔

ﷲ آپ کو سلامت رکھے اور آپ کے لئے بےشمار دعائیں ۔

خیر اندیش

سمیع ﷲ ملک

لندن‘‘۔

تازہ ترین