• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان لفٹر سے کیا گرا، اس کے سیاسی مخالفین قوم کی نظروں سے ہی گر گئے۔ یہ مخالفت اور رقابت نہیں شقاوت ہے کہ بظاہر ہمدردی کرنے والے شعبدہ باز نجی محفلوں اور سوشل میڈیا پر پھبتیاں کس رہے ہیں، جو خود کو نہ سنبھال سکا وہ ملک کیا سنبھالے گا۔ عمران خان تو حادثاتی طور پر گرا مگر یہاں ایسے گرے ہوئے لوگوں کی کیا کمی ہے جو اپنی باری لینے کیلئے ذلت و پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں، چند نشستوں کیلئے جھک جاتے ہیں، ذاتی مفادات کیلئے بک جاتے ہیں۔ میں نہ کسی کے جانے پر ٹسوے بہاتا ہوں نہ کسی کے آنے پر شادیانے بجاتا ہوں، مجھے کسی کی نفرت نے گھائل کیا ہے نہ کسی کی چاہت نے مائل کیا ہے ، میں شریف خاندان کا وظیفہ خوار ہوں نہ عمران خان کا وفادار، قصیدے پڑھنے اور سر دھننے کا کام انہی کو مبارک جنہیں ماضی میں لی گئی مراعات کا حق ادا کرنا ہے یا مستقبل میں عہدوں کیلئے کسی جماعت کا دم بھرنا ہے، صحافت کے اس ادنیٰ طالب علم کو شوقِ کمال ہے نہ خوفِ زوال اس لئے کسی لالچ و طمع کے بغیر بقائمی ہوش و ہواس سیاسی بزرجمہروں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ بغلیں بجانے کی چنداں ضرورت نہیں، عمران خان بھلے گر گیا مگر قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ہیوگو نے کہا تھا اس خیال سے طاقتور کوئی چیز نہیں جس پر عملدرآمد کا وقت آچکا ہو اور اس ملک میں نئے پاکستان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ بجز انقلاب کے کوئی خواب آنکھوں میں جچتا ہی نہیں۔معروف مورخ محمد ہیکل کی کتاب”آیت اللہ کی واپسی“جس کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوا اس میں مصنف نے اذہان قلوب بدلنے کی کیفیت نہایت دلچسپ پیرائے میں بیان کی ہے ”جو کوئی 20 سال کی عمر میں ہے اور اشتراکیت کا معترف نہیں، اس کے سینے میں دل نہیں اور جو 40 سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور ابھی تک کمیونزم کا حامی ہے وہ عقل سے پیدل اور دماغ سے عاری ہے“۔ ہمارے ہاں بھی بعض دانشور کہتے ہیں کہ 70ء کی دہائی میں جو طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ کا ہم رکاب نہ تھا اس کا طبی معائنہ کرانا چاہئے اور جو شخص اس دور میں سیاست میں دلچسپی رکھتا تھا مگر بھٹو کی کرشماتی شخصیت سے متاثر نہیں ہوا، اس کی بینائی و دانائی مشکوک ہے۔ میرا خیال ہے آج کے دور میں جو لوگ بیلٹ بکس کے ذریعے تبدیلی کے خواہشمند ہیں اور انہیں تبدیلی کی علامت بن جانے والے عمران خان کی قابل رشک جدوجہد دکھائی نہیں دیتی ان کی آنکھوں پر جانبداری و تعصب کی پٹی بندھی ہے۔
جارج میکڈونلڈ کے الفاظ مستعار لوں تو دستیاب سیاسی قیادت میں عمران خان ہی وہ واحد شخص ہے جو ستائش کے اس عظیم ترین درجے پر فائز ہے جہاں یہ تصریح کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ لوگ اسے دیوانہ وار چاہتے ہیں یا اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ چرچل نے کہا تھا، ہر شخص کی زندگی میں ایک خاص لمحہ ضرور آتا ہے جب اس کا کندھا تھپتھپایا جاتا ہے کوئی بڑا کام کرنے کیلئے اس کی صلاحیتوں کے عین مطابق موقع ودیعت کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے قسمت کی دیوی گر کر رفعتوں کو چھونے والے عمران خان کے آگے سرنگوں ہے اور جیت اس کا مقدر ہو چکی ہے۔ اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ میرے قابل احترام بزرگ صحافی اس حقیقت کا ادراک کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟ اگر واقعی تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے فضا ہموار ہو چکی ہے تو نہایت منجھے ہوئے جہاندیدہ، تجزیہ نگار کس مغالطے کا شکار ہیں۔ جب امیدواروں کی جانچ پڑتال ہوتی ہے، انہیں کامیابی کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے تو خود عمران خان، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، اسحاق خاکوانی، جہانگیر ترین اور چند دیگر معروف Electables کا شمار کر کے 20 سے25 سیٹوں پر تحریک انصاف کی کامیابی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے مگر میرے دوست یہ نہیں سمجھ پاتے کہ عمران خان نے سیاسی جمود پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ وقت کے سانچے بدل گئے ہیں، سوچ کے دھارے اور فکر کے پیمانے تبدیل ہو گئے ہیں لوگ عمران خان اور ”بلّے“ پر فریفتہ ہیں۔ جب بھٹو نے 1970ء کا الیکشن لڑا تو اس کے پاس بھی 20,25 تجربہ کار سیاستدان تھے مگر اس نے قومی اسمبلی کی 81 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میں سے42/ارکان اسمبلی نے کبھی کوئی بلدیاتی الیکشن بھی نہیں لڑا تھا۔ بابائے سوشلزم شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن، محمود علی قصوری اور رانا تاج نون جیسے لوگ جنہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ الیکشن لڑا، فتح یاب ہو کر پارلیمینٹ پہنچے۔ 1997ء کا وہ انتخاب جب میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت لینے میں کامیاب ہوئے، ان کے ٹکٹ پر پنجاب سے75 نئے امیدواروں نے تجربہ کار سیاستدانوں کو پچھاڑ دیا۔ 2002ء کے انتخابات میں تو سب ریکارڈ ٹوٹ گئے 272 منتخب ارکان قومی اسمبلی میں سے199 ایسے تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ الیکشن لڑا اور جیت گئے بالخصوص مجلس عمل کے امیدواروں سے متعلق تو کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ چند ہزار ووٹ لے پائیں گے یا نہیں لیکن ووٹروں نے امیدواروں کے بجائے کتاب کے انتخابی نشان کو ووٹ دیئے۔ ایم ایم اے نے قومی اسمبلی کی جن45 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ان میں سے 28 ایسے خاک نشین تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ انتخاب میں حصہ لیا۔ 2008ء کے انتخابات کی کوکھ سے جس پارلیمینٹ نے جنم لیا اس میں60 فیصد نئے چہرے تھے192/ارکان پارلیمینٹ پہلی مرتبہ منتخب ہوئے۔ اسلام آباد کی دونوں نشستیں جو مسلم لیگ ن نے جیتیں، نئے نویلے امیدواروں کے حصے میں آئیں۔ فاٹا سے 7/ارکان پہلی مرتبہ ایوان میں پہنچے، سندھ سے 28 پنجاب سے77 اور خیبرپختونخوا سے19 ایسے امیدوار کامیاب ہوئے جنہوں نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا اور بلوچستان سے تو 84.6 فیصد یعنی13 میں سے11 حلقوں پر تبدیلی سامنے آئی۔ اگر پرانے اور سیانے سیاستدان ہی کامیابی کی ضمانت ہوتے تو ماضی میں یہ انہونیاں ہر گز نہ ہوتیں۔
اب آتے ہیں اس آخری سوال کی طرف کہ عمران خان پرانے چہروں کے ساتھ تبدیلی کیسے لائیں گے؟ ویسے تو یہ سوال ہی نہایت مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف Electables کی بنیاد پر جیت کے امکانات رد کئے جائیں اور جب یہ سوال بے معنی ہو جائے تو اس کے برعکس یہ اعتراض لگا دیا جائے کہ آپ کے پاس جو تھوڑے بہت مضبوط امیدوار ہیں بھی تو کیوں ہیں؟ اگر لوٹوں کی کسوٹی پر ہی دونوں جماعتوں یعنی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کا موازنہ کر لیا جائے تو نواز لیگ کو واضح سبقت اور برتری حاصل ہے۔ دو ہفتے قبل جنگ کے صفحہ اول پر ہی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ میاں نواز شریف لوٹوں کو دانہ ڈالنے میں سب سے آگے ہیں اور حالیہ الیکشن میں 146/ایسے افراد کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں جو مسلم لیگ ق یا پیپلزپارٹی چھوڑ کر نواز لیگ میں آئے۔ الیگزینڈر دی گریٹ نے کہا تھا، مجھے شیروں کی اس فوج سے کوئی خوف نہیں جن کی کمان بھیڑوں کے ہاتھ میں ہو، میں تو بھیڑوں کے اس لشکر سے لرزہ براندم ہوں جس کی قیادت کسی شیر کے ہاتھ میں ہو۔ بلاشبہ تحریک انصاف میں بھی بہت سی بھیڑیں ہیں مگر میاں صاحب کے علامتی شیر کے برعکس اس کی قیادت ایک شیر دل کپتان کے ہاتھ میں ہے جو زخمی ہونے کے بعد زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک عمران خان تو نہیں ہو سکتا، سب شیر تو نہیں ہو سکتے مگر بھیڑیں ایک شیر صفت انسان کو قیادت کیلئے تو منتخب کر سکتی ہیں۔ مدر ٹریسا نے کہا تھا غیر معمولی کام تو یقینا چند لوگ ہی کر سکتے ہیں مگر معمولی نوعیت کے کام غیر معمولی جذبے کے ساتھ ہم سب کر سکتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ 11 مئی کو گھروں سے نکلیں اور تبدیلی لانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
تازہ ترین