پاکستان اسٹیل ملز کے چار ہزار پانچ سو چوالیس ملازمین کی برطرفی ایک طرف بہت سے خاندانوں کے لئے معاشی مشکلات اور عدم تحفظ کا پروانہ ہے تو دوسری جانب اس فیصلے سے ان لوگوں کی توقعات کو دھچکا لگا ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت سے بڑی تعداد میں روزگار کی فراہمی کی امیدیں بر آنے کے منتظر تھے۔ اسٹیل ملز ایک قومی پروجیکٹ ہے جو 1970ء کی دہائی میں روس کی امداد اور تعاون سے قائم ہوا تھا اس نے آمدنی سمیت قومی مقاصد کے حصول کے حوالے سے اچھے نتائج بھی دئیے۔ مگر بعدازاں سیاسی بنیادوں اور غلط بخشیوں کے طور پر تقرریوں کی بھرمار نے اس کے بوجھ میں اضافہ کیا اور ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ ایک بار اسے ڈی نیشنلائز کیا جانے لگا تھا بعدازاں جو کیفیت چلتی رہی اس کے منظرنامے میں رواں سال 3؍جون کو اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ادارے کے 9ہزار سے زائد ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی سفارش کی تھی جس کی 9؍جون کو وفاقی کابینہ کی طرف سے منظوری دے دی گئی۔ ترجمان پاک اسٹیل کے اعلامیے سے برطرف ہونے والوں کے نام اور عہدے کے تحت کسی فہرست کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کے مطابق ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے تحت اوسطاً 23لاکھ روپے فی کس ملیں گے مگر مہنگائی کے موجودہ دور میں کوئی فرد فارغ بیٹھ کر طویل عرصے تک اپنے خاندان کی ضرورتیں اس رقم میں پوری نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہ ضرورت بڑھ گئی ہے کہ بے روزگار ہونے والوں کی گزر بسر اور سماجی تحفظ کے لئے کوئی جامع پلان سامنے لایا جائے۔ یہ پلان برطرفیوں کے اعلان سے پہلے تیار کیا جانا چاہئے تھا تاہم اب بھی اس باب میں کام کیا جاسکتا ہے 9ہزار مجموعی ملازمین میں سے باقی ماندہ کو برقرار رکھتے ہوئے اسٹیل ملز کی کارکردگی بہتر بنانے کی تدابیر کی جائیں تو شاید مثبت نتائج برآمد ہوں اور ادارے کو منافع بخش بنایا جاسکے۔