ماہرین اب تک ہر کام کو آسانی سے انجام دینے کے لیے بے شمارروبوٹس تیار کر چکے ہیں ۔حال ہی میں ایک ایسا روبوٹ تیار کیا گیا ہے جو انسانوں کے مقابلے میں 350 گنا تیزی سے اشیا ء کی شناخت کر سکتا ہے ۔ یہ روبوٹ نیورل (اعصابی) نیٹ ورک کی طرز پر کام کرتا ہے جسے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے کین گولڈبرگ اور ان کے ساتھیوں نے ڈیزائن کیا ہے۔قبل ازیں انہی سائنس دانوں کی ٹیم ایک سافٹ ویئر اور ہارڈویئر میں بعض تبدیلیاں کرچکی ہے ،جس کی بنا پر روبوٹ بازو کی گرفت کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے اور اب وہ کمپیوٹر کی بدولت بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں اور سہ جہتی (تھری ڈائمینشنل) انداز میں اشیا کو اس کے اصل مقام پر دیکھتے ہیں۔
اس طرح وہ رکاوٹوں سے ٹکرائے بغیر کسی بھی شے کو بہتر انداز میں اُٹھاسکتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ روبوٹ بازو اشیا کو اٹھانے کے لیے بجلی کی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ اس دوران ان کی رفتار میں اتارچڑھاؤ کی وجہ سے یا تو شے درست انداز میں اٹھ جاتی ہے یا پھر ٹکرا کر نیچے گرجاتی ہے۔ اسی طرح جھٹکے سے روبوٹ بازو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ماہرین نے اندازہ لگایا کہ ہر کام کے لیے روبوٹ بازو کی رفتار، تیزی اور گھماؤ کا اندازہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس موقع پر کمپیوٹر اور نیورل نیٹ ورک ہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے سائنس دانوں نے روبوٹک بازو کو نیورل نیٹ ورک سے قابو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سافٹ ویئر کو سکھانے کے لیے انہوں نے کئی ماہ تک ہزاروں اشیا رکھیں اور اسے ان پر مشق کروائی گئی۔اس طرح روبوٹ بازو آخرکار یہ جان گیا کہ وقت بچانے اور محفوظ ترین انداز میں کوئی چیز اٹھانے کے لیے اسے کیا کرنا ہوگا۔ اس طرح کمپیوٹر اب یہ فیصلہ 80 ملی سیکنڈ میں کرسکتا ہے اور اس سے قبل یہی فیصلہ کرنے میں اسے 30 سیکنڈ لگتے تھے۔ کمپیوٹر جیسے ہی فیصلہ کرتا ہے۔ روبوٹ فوری طور پر بازو کو وہ شے اٹھانے کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح پیکنگ کی رفتار کئی سو گنا بڑھ سکتی ہے۔