غیر منقسم ہندوستان میں مغربی دنیا سے جب تک تفریح کے دیگر ذرائع پیدا نہیں ہوئے تھے، تب تک مقامی زبانوں میں شعر و ادب ہی اس خطے کی فنی علامت اور تفریح و طبع کا ذریعہ بھی تھا۔ اس طرح مختلف زبانوں میں بہترین لکھنے والے پیدا ہوئے۔ بنگالی ادب بھی اس حوالے سے بہت زرخیز رہا ہے، اس میں بہت ذہین شعرا اور ادبا منظر عام پر آئے، انہی میں سے ایک نام’’ببھوتی بھوشن بندو پادھیائے‘‘ کا ہے، جنہوں نے اپنی کہانیوں میں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کے ہندوستان کی عکاسی اس قدر حقیقی انداز میں کی کہ قارئین ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے، تصور کے زور پر تاریخ میں پیچھے کی طرف سفر کرسکتے ہیں، جہاں گائوں دیہات کی زندگی میں عام بنگالی کردار متحرک دکھائی دیتے ہیں۔
ان کے ایسے ہی کرداروں سے مزین، ان کا سب سے مقبول اور شاندار ناول’’پتھیریا پانچالی‘‘ ہے، جس کا اردو میں مفہوم’’شاہراہ کا گیت‘‘ہے۔ اس شہرہ آفاق ناول نے اشاعت کے بعد بے حد مقبولیت حاصل کی، اس کو مزید شہرت تب ملی، جب ممتاز بنگالی فلم ساز’’ستیا جیت رائے‘‘ نے اس ناول پر فلم بنائی۔ عالمی سینما اور بین الاقوامی ادب میں، یہ دونوں شخصیات اس ناول کی بدولت زندہ رہیں گی۔
اردو ادب میں جو طرز نگارش منشی پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کا ہے، وہی انداز اور ماحول ببھوتی بھوشن کی کہانیوں میں سانس لیتا محسوس ہوتا ہے، فرق صرف منظرنامے کا ہے، ان کی کہانیوں کے پس منظر میں سادہ لوح بنگالی مردوزن کے کردار ہیں، جن میں عورتیں بہت شفیق اور مہربان، جبکہ مرد کے مختلف روپ پیش کیے گئے ہیں۔ وہ کہیں محنتی ہے، کہیں بیوقوف تو کہیں بے وفا اور کہیں محبت کرنے والا، مردوں کے خاکوں میں مصنف نے تصورات کی چومکھی تراکیب استعمال کی ہیں۔
ببھوتی بھوشن نے ناول اور افسانے کی اصناف میںا پنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کی ابتدا کی، بچوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا، اس طرح تقریباً 14ناول، کہانیوں کے 19 مجموعے، چند ایک بچوں کے ادب کی کتابیں بشمول تراجم اور کئی مقامی سفرنامے شامل ہیں۔ ان کا سب سے مشہور ناول’’پتھیر پانچالی‘‘ہی ثابت ہوا، جس کا اردو ترجمہ 1991 میں ہندوستان کے سرکاری ادبی ادارے’’ساہتیہ اکادمی‘‘ سے ہوا، اس ناول کے مترجم ’’اقبال کرشن‘‘ ہیں، جو کہنہ مشق مترجم، ادیب اور شاعر ہیں، انہوں نے اردو، فارسی اورعربی میں ایم اے کی اسناد بھی حاصل کیں۔ راقم کے ذاتی کتب خانے میں، ناول کا یہ نایاب اور اصل ایڈیشن موجود ہے، جوکہ بہت ہی معیاری انداز میں چھاپا گیا ہے۔
اس کتاب کے مترجم نے ناول کا مرکزی خیال بہت جامع طور پر بیان کیا، لکھتے ہیں۔’’یہ ناول انسان کے ازلی دکھ کی کہانی کا عالمی ادبی شاہکار ہے۔ اس میں گزرتے لمحات کا نوحہ ہے اور انسانی سماج کو فنا کے تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فطرت اور انسان کے رشتے پر زور دیا گیا ہے۔ ناول کا بیانیہ بہت طاقتور ہے۔
نئی روشنی سے محروم دیہاتی عوام کی نفسیات پیش کرنے میں اس ناول کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ جدید بنگلہ ادب کا یہ شاہکار بجا طور پر عالمی ادب کا شاہکار بھی بن گیا ہے۔ ناول میں ایک اوسط ہندوستانی گائوں کی سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔ یہ نئے اور پرانے اقدار کے تصادم کی کہانی ہے۔ مغربی تسلّط کے تحت صنعتی دور کی آمد سے ہندوستان کا پرانا سماجی ڈھانچہ کس طرح متزلزل ہو جاتا ہے، اس کی بھیانک تصویر دکھائی گئی ہے۔‘‘
ہندوستان میں جہاں ایک طرف کمرشل سینما کو فروغ ملا، وہیں دوسری طرف پیررل یعنی متوازی و آرٹ سینما بھی دھیرے دھیرے پروان چڑھا، اس سینما کے چند کلیدی فلم سازوں کی بات کی جائے، تو ان میں سرفہرست فلم ساز’’ستیا جیت رائے‘‘ ہیں، جنہوں نے ہندوستانی سماج بالخصوص بنگالی جہتوں کو بہت ہی تخلیقی طور اور عمدہ انداز سے بڑی اسکرین پر پیش کیا، بین الاقوامی سینما میں اپنے ہم عصرفلم سازوں کے برابر آن کھڑے ہوئے، دنیائے فلم کی معروف ’’آسکر اکادمی‘‘ نے ان کو سینما کی خدمات کے طور پر 1991 میں اعزازی آسکرایوارڈ سے نوازا، اس کے علاوہ ہندوستان کے تمام بڑے ایوارڈز اور عالمی دنیا سے بھی نامور اعزازات وصول کیے۔
ستیا جیت رائے نے نہ صرف فلمیں بنائیں بلکہ خود بھی ادب تخلیق کیا اور اپنی فلموں کے لیے اچھے ادب کا انتخاب بھی کیا، انہی میں سے ایک یہ ناول تھا، جس پر انہوں نے فلم بنا کر فلم بینوں کے دل جیت لیے، اس فلم کااسکرپٹ بھی ستیاجیت رائے نے خود لکھا۔ 1955 میں یہ فلم اسی ناول کے نام سے ریلیز ہوئی اور اس کو بہت پسند کیا گیا۔
آرٹ سینما میں اس فلم کی حیثیت ایک ستون کی سی ہے۔ اس فلم کی موسیقی ممتاز موسیقار’’روی شنکر‘‘ نے مرتب کی۔ ستیا جیت رائے کی یہ بھی ایک عادت تھی کہ وہ اپنی فلموں کے اسکرپٹس کی ڈرائنگ بنایا کرتے، یعنی پہلے منظر کو کاغذ پرابھارتے، پھر اسکرین پر اس منظر کو تخلیق کرتے، ان کی فلموں میں ادبیت بہت شدید طور سے رچی بسی ہے، یہی وجہ ہے، ان کی فلمیں سینما میں ادب کی مانند درجہ رکھتی ہیں۔