• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمیل جالبی

جیسے علوم سائنس میں تحقیق بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اسی طرح ادب، شاعری اور تخلیق میں بھی تحقیق بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اگر شاعر کو یہ معلوم ہے کہ اس کے اسلاف نے یہ کام کیسےکیا تھا تو وہ نہ صرف بہتر بلکہ زندہ رہنے والی شاعری کرسکے گا۔ جیسے عمارت بنانے سے پہلے عمارت کے پورے نقشے کی ضرورت ، اس کے مقصد، زمین جس پر وہ عمارت بنائی جارہی ہے، آب و ہوا، ماحول اور موجود سامان عمارت وغیرہ سے پوری طرح واقف ہونا ضروری ہے، اسی طرح تخلیق ،تنقیداور علم و ادب کی ہر شاخ کو پورے طور پر پروان چڑھانے کے لئے تحقیق کا عمل ضروری ہے ۔ 

وہ ادیب، نقاد اور شاعر جو تحقیق سے دامن بچاتے ہیں، اسے بے ضرورت اور غیراہم سمجھتے ہیں یا بے خبری میں اپنی تخلیق و تحریر سے سرسری طور پر گزر جانا چاہتے ہیں ، علم و ادب کی دنیا میں ہر گز وہ کام نہیں کرسکتے، جس کی وہ آرزو رکھتے ہیں۔ ہر بڑا شاعر، ناول نگار، افسانہ نویس، نقاد، ا فلسفی اور ہر بڑا سائنس دان تحقیق کے بغیر کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکتا ۔

تحقیق جس استقلال جس صبر، محنت اور توجہ کی طالب ہے ،ہم اس سے اس لئے بھاگتے ہیں کہ ہمیں تو اب روٹی بھی پکی پکائی ہی اچھی لگتی ہے ۔ تن آسانی تحقیق کی دشمن ہے ، اور بفضل تعالیٰ تن آسانی ہمارے خون میں اچھی طرح سرایت کرگئی ہے ۔ ہماری زبان ادب، ثقافت وتاریخ کے لاتعداد مخطوطات جو بنیادی مآخد کا درجہ رکھتے ہیں، ملک سے باہر انگلستان کی انڈیا آفس لائبریری، برٹش میوزیم، آکسفورڈ اور فرانس ، جرمنی ، ایران، ہندستان وغیرہ میں پڑے ہوئے ہیں، جن تک رسائی اہل علم و ادب کے محدود مالی وسائل کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حکمراں اپنے ملک کی تاریخ ، اس کی ادبیات اور تہذیب، ثقافت کے متعلق سارے مخطوطات کی مائیکرو فلم یا ان کے عکس حاصل کرکے اسلام آباد، کراچی، اور لاہور کے مرکزی کتب خانوں میں محفوظ کردیتے،تاکہ ہمارے اہل علم و ادب ان سے استفادہ کرکے علم و ادب کے پھول کھلا سکتے ۔

ایک وقت تھا جب مختلف مخطوطات کے بارے میں تعارفی تحقیقی مقالات لکھنے کا عام رواج تھا۔ یہ تعارف عام طور پر اسی مخطوطے تک محدود ہوتا تھا لیکن اب جدید رجحان یہ ہے کہ کسی قلمی کتاب کا تعارف کرانے کے لئے ضروری ہے کہ محقق ان سارے مخطوطات کی نشان دہی کرے جو مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں اور یہ بھی بتائے کہ اس مخطوطے کا ذکر کن کن کتابوں میں کہاں کہاں آیا ہے ۔ساتھ ساتھ مصنف کے بارے میں بھی معتبر ماخذ کے حوالے سے معلومات فراہم کرے اور اس تصنیف کے زمانے کا بھی تعین کرے ۔ زبان کا مطالعہ کر کے ان اثرات کوبھی واضح کرے جو اس تصنیف میں ملتے ہیں اور یہ بتائیے کہ اس زبان اورجدید زبان میںتبدیلیوں کی کیا نوعیت ہے اور یہ تبدیلیاں کیوں پیدا ہوئیں ، اس کے رجحان کے زیر اثر لسانیات و صوتیات کا علم بھی اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے ۔

چالیس سال پہلے تک ترتیب و تدوین متن کو وہ اہمیت حاصل نہیں تھی جو اب حاصل ہے۔ پہلے عام طور پر کسی ایک نسخے کو لے کر متن تیار کردیاجاتا تھا۔ اگر کوئی دوسرا نسخہ آسانی سے میسر آگیا تو پہلے نسخے کے مشکل مقامات کو اس کی مدد سے حل کرلیا اور اس کا حوالہ حواشی میں دے دیا لیکن اب تدوین متن سے پہلے مرتب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس مخطوطے کے زیادہ سے زیادہ نسخے فراہم کرے اور پھر ان سب کی مدد سے مستند متن تیار کرے اور اختلافات و تعلیقات حواشی میں درج کردے ۔ 

یہ بہت محنت طلب کام ہے اور اسی لئے تدوین متن کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ ہمارے ہاں آج بھی یہ صورت ہے کہ بہت کم شعرا ء مثلاً میر جیسے شاعر کی مستند و مکمل کلیات اب تک سامنے نہیں آئی اور آج تک کلیات میر مرتبہ عبدالباری آسی سے کام چل رہا ہے ۔

تاثراتی تنقید کا طلسم بھی تحقیق و تنقید کے ربط و جذب کے زیر اثر ٹوٹ رہاہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے اور صحت مند رجحان بھی ہے ۔

اب یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ محقق کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ مختلف مصنفوں کی تصانیف کے ایسے مستند متن تیار کرے جو اغلاط و تحریف سے پاک ہوں، ساتھ ساتھ وہ اپنے ماخذ کی نشان دہی کرے اور حواشی بھی لکھے ۔ مصنفوں اور ادب کے ادوار کے چھوٹے بڑے سب اور صحیح حالات مرتب کرے۔علم کی ان شاخوں کو اپنی صلاحیت اور علم سے سیراب کرے، جنہیں جدید اصطلاحوں میں کتابیات(Bibliography) تاریخ اور سلسلہ واقعات یعنی تقویم (Chronology) ابجدی اشاریہ(Conocrdance) اور لفظ شماری کہاجاتا ہے ۔ تاریخ ادب کی ان چھوٹی بڑی سب غلطیوں کی نشان دہی کرکے ان غلط فہمیوں کو دور کرے ،جنہوں نے پڑھنے والوں کے ذہن میں جڑ پکڑ لی ہے ۔ 

دوسری زبانوں سے اپنی زبان میں مستند تراجم پیش کرے ، ان پر نہ صرف حواشی لکھے بلکہ پڑھنے والوں کے لئے نئے ماخذ کی نشان دہی بھی کرے ۔ ادب کے مستند و نمائندہ انتخاب بھی مرتب کرے ۔۔ تحقیق و تدوین کے اصول و فن کے بارے میں کتابیں تصنیف کرے۔ مختلف کتابوں، مصنفوں ، اور واقعات کے زمانے اور سنین کا تعین کرے ۔۔ یہ وہ کام ہوگا ،جس پر نقاد صحیح تنقید کی بنیاد رکھے گا۔ ادبی تاریخ لکھنے کے لئے ان دونوں کے امتزاج کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ ادبی مورخ کے لئے ضروری ہے کہ اس میں تحقیق و تنقید کی یکساں صلاحیت ہو۔

جدید تحقیق میں معروضی انداز نظر اور کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے اسے پوری طرح ٹھونک بجا کر دیکھنے کا صحت مند رجحان بھی بڑھ رہاہے ۔ معتبر اور اصل ماخذ کی اہمیت بھی قائم ہورہی ہے لیکن جیسے طلوع آفتاب کے ساتھ دھوپ آہستہ آہستہ منڈیروں پر پھیلتی ہے اسی طرح یہ رجحانات بھی اس طور پر نمایاں ہواہے کہ اہل تحقیق اس کی اہمیت کو تو دل سے مانتے ہیں لیکن جب خود کام کرتے ہیں تو سہل پسندی یا مزاج کی کاہلی کے باعث پوری طرح عمل نہیں کرپاتے۔ وقت کے ساتھ یہ رجحان بھی غالب آجائے گا اور وہ اس لئے کہ اصل تحقیق کا یہی صحیح اور واحد راستہ ہے۔

جدید تحقیق میں ایک اور صحت مند رجحان بھی پروان چڑھ رہا ہے ۔ آزادی سے پہلے کے مقدمات میں چند مستثنیات کو چھوڑ کر یہ بات عام طور پر نظر آتی ہے کہ متعلق وغیر متعلق مواد کا ملبہ، انتخاب اور چھان پھٹک کے بغیر ،جمع کردیاگیا ہے ۔ 

محقق نے نتائج اخذ کرنے کی بھی زحمت نہیں اٹھائی۔ اب نیا رجحان یہ ہے کہ محقق کے لئے نتائج اخذ کرنا بھی ضروری ہے ، اس رجحان سے تحقیق میں جہت پیدا ہوگئی ہے اور معنویت و افادیت بھی بڑھ گئی ہے ۔

پی۔ ایچ ۔ڈی کے مقالات کی تعداد بھی روزبروز بڑھ رہی ہے ۔ ان مقالات میں ایک خوبی عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ وہ ضروری وغیر ضروری مواد کے ڈھیر سے لدے پھندے ہوتے ہیں اوراسی وجہ سے ضخیم اور فربہ ہوتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسے کیا شامل کرنا ہے اور کیا شامل نہیں کرنا ۔ تحقیق کا سارا رف ورک شامل کرنے سے مقالہ تو ضخیم ہوجاتا ہے لیکن اصل موضوع بے ضرورت مواد اور پھیلاؤ کی وجہ سے دب کر رہ جاتا ہے ۔ 

بعض مقالات میں صرف ضروری مواد شامل کیاجائے اور اختصار و جامعیت پر زور دیاجائے یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا ، موجودہ تحقیقی مقالات کی خرابی کے ذمہ دار وہ استاد ہیں جو جامعات میں ان مقالات کے نگراں ہیں اور خود فن تحقیق و تدرین کے اصول و مسائل سے نابلد ہیں۔

گزشتہ پندرہ بیس سال سے پاکستان میں ایک اور رجحان بھی نمایاں ہورہا ہے اور وہ ہے فکر، خیال، روایت اور مابعد الطبیعیات کی تحقیق و تلاش تاکہ تہذیبی آلودگیوں کو دور کر کے اس سچائی کو اصل شکل میں دریافت کیاجاسکے جس سے اپنے معاشرے کی تشکیل نو کی جاسکے ۔ اس تحقیق کا بنیادی حوالہ بھی ادب ، تاریخ اور تہذیب و ثقافت ہے ۔ تحقیق کی یہ نوعیت پانی جگہ منفرد ہے اور اس کی روایت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔

تازہ ترین