کراچی (نیوز ڈیسک) پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ میرے پاس صرف ایک پراپرٹی ہے، پاکستان میں میرا گھر ہے جو حکومت نے مجھ سے چھین لیا ہے، لندن اور دبئی میں جائیدادوں کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ میرے بچوں کا صرف ایک ولا ہے جو اُن کی ملکیت ہے کیونکہ وہ 17 سال سے کاروبار کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرے بچے آزاد ہیں اور میری سرپرستی میں نہیں۔ اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے، سب کو معلوم ہے 2018ء کا الیکشن چوری کیا گیا۔
لندن میں مقیم مسلم لیگ نواز کے رہنما اسحاق ڈار نے بی بی سی کے شو ’ہارڈ ٹاک‘ میں پاکستان کو درپیش معاشی مسائل، اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی اور مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کے الزامات پر بات کی۔
انٹرویو میں سابق وزیرخزانہ کو میزبان اینکر سٹیفن سیکرکے تند و تیز سوالات کا سامنا ، اسحاق ڈار کئی کے جوابات دیتے ہوئے مشکل میں پڑ گئے ۔
نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق بیان کے سوال پر جواب دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ ایسا کرتی ہے۔
ہیلری کلنٹن بھی ڈیپ اسٹیٹ سے متعلق پاکستان کی مثال دے چکی ہیں۔ نواز شریف جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں، کیا اس میں کوئی برائی ہے؟ برطانیہ بھی تو جمہوریت اور جمہوری اقدار کی حمایت کرتا ہے۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ آپ تو ہمارا ساتھ دیں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ عالمی رپورٹس بھی یہی کہہ رہی ہیں کہ جمہوری عمل کو کمزور کیا جارہا ہے۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، اور اگر یہ بغیر کسی شبہ کے اب ثابت ہو گیا ہے۔ کوئی تو منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ ہم نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کے اداروں اور ڈیپ اسٹیٹ سے مسائل نہ ہوتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ وہ ایسا کیوں کہیں گے؟‘
ان سے سوال پوچھا کہ ’ان کے باس نواز شریف کئی سالوں تک ضیا کے ساتھ کام کر رہے تھے اور اب ایسا کہہ رہے ہیں، کیا یہ منافقت کے مترادف ہے؟‘
اس پر ان کا جواب تھا کہ ’میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ یہ ارتقا کا عمل ہے۔‘اینکر نے پوچھا کہ ’کیا یہ اس لیے ہے کہ اب وہ اقتدار میں نہیں؟‘ تو سابق وزیر خزانہ پاکستان ان کا جواب تھا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ’وہ تین بار وزیر اعظم رہے ہیں۔‘ انہوں نے اس سوال پر دوبارہ وزیر داخلہ کے بیان کی مثال دی۔ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ میں لندن قانون سے بچنے کیلئے نہیں آیا ۔
موجودہ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک پوشیدہ آمریت ہے، ایک جوڈیشل مارشل لا ہے۔‘اسحاق ڈار کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ میرے پر لگائے گئے الزام بے بنیاد ہیں، میرا نام پاناما پیپرز میں نہیں تھا۔ میں اپنے خلاف الزامات کے خلاف ثبوت پیش کر سکتا ہوں۔‘
منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’میرا نام ان دستاویزات میں کہیں درج نہیں ہے۔نیب سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اپنی اہمیت بہت پہلے ہی کھو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ میں حکومت میں رہتے ہوئے بھی اس پر پریس کانفرنس کر چکا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جے آئی ٹی میں میرے خلاف الزام یہ تھا کہ میں نے سنہ 1981 سے سنہ 2001 تک 20 سال کے عرصے میں پاکستان میں اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے۔ میں برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤ نٹننٹ ہوں، جب میں برطانیہ میں تھا تو میں نے کبھی اپنے گوشوارے جمع کروانے میں کوتاہی نہیں کی۔ لہذا میرے خلاف یہ نہایت غلط الزام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے تفتیش سے کوئی مسئلہ نہیں۔‘
پاکستان واپس آنے کے بارے میں اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ تقریباً تین سال سے لندن میں ہیں اور ان کے وکلا پاکستان میں مقدمات کو دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ انسانی حقوق کہاں ہیں؟ نیب کی حراست میں لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ درجنوں لوگوں کو مار دیا گیا ہے۔‘’آپ ساری معلومات گوگل کر سکتے ہیں۔ اس ادارے کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ (میرے اثاثوں سے متعلق) ساری معلومات ٹیکس دستاویزات میں درج ہیں اور یہ لاپتہ نہیں۔ تو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ کچھ الگ ہے۔ نواز شریف سویلین بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘’دونوں مقدمات جن میں نواز شریف کو سزا ہوئی ہے، دونوں فیصلوں میں لکھا گیا ہے کہ استغاثہ کوئی بدعنوانی ثابت نہیں کر سکی۔ تو اور کیا چاہیے؟‘
اس پر اینکر کی جانب سے ان سے کہا گیا کہ ’نواز شریف اور آپ سزا یافتہ ہیں اور علاج کی غرض سے لندن میں بیٹھے قبل از وقت انتخابات کی بات کر رہے ہیں، تو آپ دونوں کی کیا ساکھ ہے؟‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کی حکومت کی کیا ساکھ ہے؟ دنیا دھاندلی اور چوری شدہ انتخابات دیکھ چکی ہے۔ ہم نے تجربہ کیا ہے، سنہ 2018 میں رائے عامہ کے تمام جائزوں نے پیشگوئی کی تھی کہ مسلم لیگ نواز جیت جائے گی۔ لیکن مبصرین اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انھیں تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دیا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ ہم سے الیکشن چُرایا گیا۔‘
انتخابات میں مخصوص مقامات پر کئی جماعتوں کی جانب سے خلاف ورزیوں کے حوالے سے یورپی یونین کی رپورٹ سے متعلق سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’شاید آپ نے تمام رپورٹس نہیں پڑھیں۔فافین کا نیٹ ورک عالمی سطح پر کام کرتا ہے۔ (اس کے مطابق) اس الیکشن کو چُرایا گیا ہے۔ قبل از وقت دھاندلی ہوئی۔ نیب کا استعمال کر کے ہماری جماعت سے الیکٹیبلز ان کی جماعت (پی ٹی آئی) میں دھکیلے گئے۔ آر ٹی ایس سسٹم رُک گیا تھا اور اسے کئی گھنٹوں تک بند رکھا گیا۔‘
ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ شاید آپ نے عمران خان کے 21 ویڈیو کلپس نہیں دیکھے جن میں وہ فوج، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کو بدنام کر رہے ہیں۔ گذشتہ سال امریکا میں انہوں نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی اسامہ بن لادن کی ذمہ دار ہے۔ جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو انہیں ’طالبان خان‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کیا ہم یہاں ان کی کارکردگی اور ہماری کارکردگی کا موازنہ کرنے نہیں آئے؟‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ہم نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا۔ مجھے لگتا ہے نواز شریف اگر حلف اور آئین کی خلاف وزری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم پاکستانیوں کے مفاد میں ہی یہ سب کر رہے ہیں۔ ہمارے دور میں دگنی آمدن جمع ہوئی، کم ترین مہنگائی، سب سے کم سود کی شرح، جنوبی ایشیا میں اسٹاک مارکیٹ کی بہترین کارکردگی، سب سے مستحکم کرنسی، مجموعی قومی پیداوار کی بلند ترین سطح۔ مغربی اداروں نے ہماری تعریف ہی کی۔‘’پاکستان 2030 میں جی 20 کا حصہ بننے جا رہا تھا اور ہم جلد ایسا ممکن بنانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ’ہم پُرامید تھے کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی، ہم پاکستان میں دہشت گردی سے لڑ رہے تھے، میکرو اکانومک انڈیکیٹرز میں بہتری آئی تھی۔‘
اسحاق ڈار نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا یہ سیاسی عدم استحکام کی بات نہیں۔ یہ نالائقی، کارکردگی نہ ہونے، دو سال میں پاکستان کی معیشت تباہ کرنے کی بات ہے، وہ بھی کورونا سے پہلے۔ سنہ 1952 کے بعد پہلی بار پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار منفی ہوئی۔ 5.8 فیصد سے، (عمران خان حکومت کے) پہلے سال 1.9 فیصد اور رواں سال منفی 0.4 فیصد۔ (ملک میں) بیروزگاری ہے۔ ہم نے چھ فیصد لوگوں کو غربت سے نکالا، انہوں نے واپس چھ فیصد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا۔‘’عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا لیکن انھوں نے اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو بیروزگار بنا دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اس وقت ایک فاشست حکومت ہے۔ ہمارا حتمی مقصد جمہوریت کی بالادستی، فری اینڈ فیئر الیکشن اور قانون پر عمل درآمد ہے۔‘اس پر اینکر نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ قانون پر عملدرآمد کے لیے پاکستان واپس جائیں گے، تو اسحاق ڈار کا جواب تھا کہ بالکل وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔’تمام اداروں کو پاکستان کے آئین کی حدود میں کام کرنا ہو گا۔ ہم اس سے بہت خوش ہوں گے۔ ایسا وزیر اعظم جو ڈی جی ایف آئی اے کو ناموں کی فہرست دے کر کہے کہ ’جاؤ انہیں گرفتار کرو‘۔ یہ کیسی گورننس ہے؟