• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علینہ عرفان، کراچی

کراچی میں موسمِ سرما کی آمد آمد ہے، ویسے تویہاں سرما کم ہی مہربان ہوتا ہے ،لیکن جس قدر بھی ہوتا ہے، ہم اُتنا ہی انجوائے کرلیتے ہیں۔ پہلے تو یہ موسم خُوب خوش گوار ہوتا تھا، لیکن اب نہ جانے کیوں اس کے آتے ہی ہمیں ایک عجیب سی اُداسی گھیر لیتی ہے، اسی سبب مزاج سے بھی بے زاریت سی جھلکتی ہےاور ایسا شاید صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں ہوتاکہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ موسمِ سرما اپنے ساتھ اداسیوں کے سائے لے کر آتا ہے۔ 

لیکن کبھی سوچا ہے کہ جاڑا ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، یہ جو آج اتنی اُداسی، تنہائی، خالی پن ہے، بچپن میں ایسا بالکل محسوس نہیں ہوتا تھا۔ شاید بچپن کی معصومیت کسی شیلڈ کی مانند ہر دُکھ ، تکلیف، تنہائی، اُداسی کےسامنے ڈٹ جاتی ہے کہ جوں جوں ہم عقل و شعور کے مدارج طے کرتے ہیں، بہت سی باتیں اپنی پور حسّاسیت کے ساتھ ہم پر منکشف ہونے لگتی ہیں۔ 

ہمیں یاد ہے کہ ہم بچپن میں ہر دو، تین سال بعد گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے آبائی گھر، دہلی جایاکرتے تھے۔لیکن ایک بار سردیاں بھی دہلی میں گزاری تھیں،گو کہ اس کے بعد بھی دو، تین باردہلی میں سردیاں گزارنے کا موقع ملا، لیکن جو مزہ بچپن کے دسمبر میں آیا تھا، وہ پھر نہ ملا۔ہماری عُمر اُس وقت شاید10، 11 برس ہوگی، جب ہم نومبر کے آخری عشرے میں دہلی پہنچے ،تو وہاں خُوب سردی پڑ رہی تھی اوریہ احساس ائیر پورٹ سے نکلتے ہی ہوگیا، مگر ہم اپنے ساتھ کچھ زیادہ گرم کپڑے نہیں لےگئے تھے۔ اس لیے اگلے ہی روز ہی ہمارے لیےگرم کپڑے خریدے گئے۔ 

دہلی شہر پرانی قدامت و تہذیب کا مرقّع ہے۔ وہاںکے گلی کُوچوں میں روایتی پھیری والوں کی آوازیں سنائی دیتیں۔ سردیوں کی راتوں میں ’’گرم آنڈے، آنڈے گرم… ‘‘ کی آوازیں خُوب بھلی لگتیں۔ جب سرِ شام پھیری والا گرم انڈے بیچنے آتا تو ہم سارے کزنز بھاگتے ہوئے مرکزی دروازےتک پہنچ جاتےاور گرم انڈے خرید کر مسالا لگا کر کھاتے ۔

دہلی کی صبحیں جلدی ہوتی ہیں اور ہم ٹھہرے سدا کےسُست الوجود، اسکول جانے کے لیے اتنی مشکل سے اُٹھتے تھے تو چھٹیوں میں کیسے علی الصباح اُٹھتے۔ مگر وہاں ہمیں زبر دستی اُٹھایا جاتااور ہم سب نیم کھلی آنکھوں سے بڑے سےکچن میں جمع ہوجاتے، جہاں دادی ماںکھانا پکا رہی ہوتیں۔ ہم سب کی آنکھیں تو تب کُھلتیں ،جب ان کے ہاتھ کی گرما گرم پوریوں کی خوش بُو آتی۔ 

آہ… کیا منظر تھا، بڑے سے کچن میں چولھے کے سامنے بیٹھی پوریاں تلتی دادی اور ان کا ہاتھ بٹاتی پھوپھی ، جو کبھی پیڑے تو کبھی آلو کی سبزی اور سوجی کا حلوا بنا رہی ہوتیں۔یہ شاہی ناشتا عموماً اتوار کوملتا تھا اور ہم سارے بچّے پیڑھیوں پر بیٹھے اپنی اپنی پوریوں کا انتظار کرتے۔ میدے سے بنی وہ پوریاں اتنی خستہ ہوتی تھیں کہ ہاتھ لگاتے ہی ٹوٹ جاتیں۔ سردیوں کی صبح گرم گرم باورچی خانے میں بیٹھ کر ناشتا کرنے کا جو لطف آتا تھا، وہ آج امریکن طرز کے بنے کچن میں ایک سے ایک کھانا کھا کے بھی نہیں آتا۔

ناشتے سے فارغ ہو کر ہم کزنز تو کھیل کود میں لگ جاتے اور گھر کی خواتین صفائی ستھرائی کے بعد دوپہر کے کھانے کی تیاری کرتیں۔ ناشتے کے برعکس دوپہر کا کھانا صحن میں بچھے تخت پر بیٹھ کر کھایا جاتا،تب ڈائننگ ٹیبلز کا رواج نہیں تھا۔ سردیوں کی نرم گرم دھوپ میں پلیٹ سے بھاپ اڑاتا مٹر پلائو، طاہری اور شلجم کااچارمزید بھوک بڑھادیتا تھا۔ دہلی کا پانی اتنا ہاضم ہے کہ صبح سات بجے کیا جانے والا ناشتا دوپہر بارہ بجے تک نہ جانے پیٹ میں کہاں گم ہو جاتا۔ 

اس لیے ڈیڑھ یا دو بجے تک ہم سب دوپہر کا کھانا کھا لیتے تھے۔شام کو بڑے تو چائے پیتے ، لیکن ہم بچّے اُس پھیری والے کے انتظار میں ہوتے ، جو مونگ کی دال کے پکوڑے اور اس کے ساتھ مزے دار چٹنی لاتا تھا۔ شام کی ہلکی ہلکی خنکی میں وہ گرما گرم پکوڑے جو لُطف دیتے تھے،نا قابلِ بیان ہے۔ وہاں کی سردیوں کی سب سے انوکھی بات ہمیںمنہ سے نکلنے والا دھواں لگتی ۔ کراچی میں ہمیں ایسی سردیاں کبھی میسر نہیں آئیں، لیکن دہلی کی کڑاکے دار سردی میں ہر شخص کے منہ سے دھواں نکلنا عام بات ہے، جسےدیکھ کرہم بچّے خُوب محظوظ ہوتے۔

رات کے کھانے سے فارغ ہوکر گھر کے بڑے کافی پیتے اورہم سب ایک بڑے سےکمرے میں گرم گرم لحافوں میں دُبک کے مونگ پھلیاں کھاتے اور ایک دوسرے کو ڈرائونی کہانیاں سناتے۔ جس کے آگے چھلکوں کا سب سے اونچا ڈھیر ہوتا ،وہی فاتح قرار پاتا۔ اُس وقت تو کمرے کے باہر ہونے والا ایک ہلکا سا کھٹکا بھی ہم سب کی جان نکال دیتا تھا اور ہم سب لحافوں میں مزید دُبک جاتے۔ پھر ساری رات ہلکی آنچ پر پکنے والے پائے یا شب دیگ کا انتظار بھی کیالُطف دیتا تھا۔ رات بھر کُھلے آسمان کے نیچے رکھی جانے والی کھوئے کی مٹھائی بھی نیند سے بار باراُٹھ کر اُس کا درشن کرنے پر مجبور کرتی ، ہم آج بھی ان سب چیزوں کا ذائقہ کہیں اندر، بہت اندر محسوس کرتے ہیں،پر وہ وقت واپس نہیں آسکتا۔ 

اب نہ وہ دسمبر ہے ، نہ سردی، کچھ ہے تو بس اِک اداسی اور یاسیت ، جس نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہےکہ وہ گھرآنگن، باورچی خانہ ، دالان، صحن ، سردیاں، پکوان، باورچی خانے میں رکھے مرتبانوں سے چرائی جانے والی گجک اور رات میں سنائی جانے والی وہ ڈرائونی کہانیاں،اَدھ کُھلی آنکھوں سے دھوپ سینکتے ہم اور ہمارا بچپن آج لاکھوں روپے کے عوض بھی ہمیںواپس نہیں مل سکتا۔

تازہ ترین