عابد ہاشمی
سال بھر پڑھائی کے بعدطلباء کی کار کردگی کی تشخیص کےلئے امتحانات لیے جاتے ہیں، جس کے ذریعے ان کی قابلیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں گزشتہ کئی برس سے امتحانات میں نقل کے رجحان میں کافی اضافہ ہو ا ہے، جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ اس کے رحجان سے لائق اور باصلاحیت طلبا کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ نقل کر کے نالائق اور تعلیم میں عدم دلچسپی رکھنے والے طلباء زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔ذہین طلباء پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے، ان میں مایوسی ،غم اور غصے کے جذبات جنم لیتے ہیں اور وہ بھی محنت سے جی چرانے لگتے ہیں تعلیمی سرگرمیوں میں ان کا ذوق و شوق ختم ہوتاجاتا ہے۔
تعلیمی معیار کو گرانے میں جہاںنقل نے اہم کردار ادا کیا ہے وہاں مختصر آسان انداز میں ماڈل ٹیسٹ پیپر، خلاصہ جات، گیس پیپرز، حل شدہ پرچہ جات، مربوط انداز میں مرتب کیا ہو منتخب مواداجب طلباء کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں تو نتیجے میں علمی جستجو کا جذبہ اُن میں ختم ہوجاتا ہے، وہ اپنی کامیابی کا انحصار ان امتحانی ٹوٹکوں پر کرتےہیں۔ وہ یہ بھی کوشش کرتےہیں کہ صرف ان سوالات کے جوابات کو رٹ کر حافظے میں محفوظ کرلیں جو عموماََ ہر سال دہرائے جاتے ہیںجن کی تعداد دو درجن سے بھی کم ہوتی ہے۔جن مضامین میں رٹے سے کام نہیں لیا جاسکتا وہ طلباء نقل کا سہار لیتے ہیں۔
نقل ایک ایسا روگ ہے،جونوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود، ان کے ارادوں کو کمزور، عزائم کو پست اورخودی کو تباہ وبرباد ،قومی ترقی کی راہ میں حائل اور نسلِ نو کے مستقبل کوداؤ پر لگا رہا ہے ۔نقل کابڑھتاہوارجحان پاکستان کے تعلیمی نظام کا وہ ناسور ہے، جس نے پورے تعلیمی نظام اور ڈھانچے کوناکام اور ناکارہ بنا دیاہے۔اس کے ذریعے پاس ہونے والے نوجوان معاشرے پر بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ ان کے پاس سند تو ہوتی ہے، مگر وہ کسی کام کے اہل نہیں ہوتے، شعور، آگہی سے نابلد، ملازمت کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
نقل کر کے پاس ہونے اور اچھےگریڈ لینے کی صورت میں ایسے ڈاکٹرز منظر عام پر آتے ہیں جن کے ہاتھوں مریض موت کی وادی میںچلاجاتا ہے ،کیوں کہ انہیں نہ مرض کی سوجھ بوجھ ہوتی ہے نہ علاج کی ۔ایسے انجینئرز کی بنائی ہوئی عمارتیں زمین بوس ہوجا تی ہیں، جو نقل کر کے ڈگری لیتے اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔
ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اور دُنیا جس برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے،ایسے میں ہمیں ’’تعلیم یافتہ، باشعور، قابل‘‘ نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے، اگر نسلِ نو تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو ہم کبھی ترقی کا سفر طے نہیں کر سکیں گے، معاشی طور پر مضبوط ہونا تو دور کی بات،جو کچھ اب تک حاصل کیا ہے اسے بھی کہیں کھو نہ بیٹھیں۔ ملک کو ترقی یافتہ بنا نے کے لیے، تعلیمی نظام کی خامیاں دور کرنی ہوں گی، نقل کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔
طلباء میں نقل کے رجحان کا ایک سبب والدین کی طرف سے بہترین گڑیڈ اور نمایاں کامیابی کا دباؤبھی تصور کیا جاتا ہے۔ والدین کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ سارا سال ان کی پڑھائی کو کتنا وقت،اہمیت اور توجہ دیتے رہے ہیں اور کتنا وقت غیر نصابی سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔ لیکن امتحانات قریب آتے ہی والدین بچوں کے اعصاب پر سوار ہوجاتے ہیں اور ان سے بہترین نتائج کی امیدیں لگا لیتے ہیں۔ لیکن اس عظیم مقصد کی تکمیل صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب طلبہ اپنی تعلیم پرکماحقہ توجہ دیں اوردوران تعلیم ایک، ذمہ دار شہری کے جملہ اوصاف اپنے اندر پیدا کریں۔
ہرشعبہ زندگی میں ترقی اورکامیابی کےلئے علم کی ضرورت ہوتی ہے،اس کے لیےملک کے معماروںصحیح تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ اگر بنیاد کھوکھلی رہ جائے تو زندگی متاثرہوسکتی ہے، جو شخص تعلیم سے کورا ہوگا،وہ بھلاملک وقوم کی ترقی کا سہاراکیوں کر اور کیسے بنے گا، لہٰذا طلبہ کی اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔
نسل نو کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر وہ ز یادہ نمبر حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو سال کے اوّل دن سے محنت اور پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھیں،اگر روزانہ آدھا گھنٹہ بھی ایک مضمون کو دیا جائے، تو امتحان کےدنوں میں نہ رات بھر جاگ کر پڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی نقل کرنے کی۔کام یابی چاہتے ہیں، تومحنت و مشقت کو اپنا شعار بنائیں،یاد رکھیںقابلیت اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ ڈگریاں محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہوں تو ملک وقوم کی عمارت بلند اورمضبوط ترہوگی۔ نقل کی بہ دولت ملنے والی سندعملی زندگی میں کسی کام نہیں آئے گی ۔