• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیسویں صدی میں ڈیٹا کی بھرمار آپ کا خیر مقدم کرتی ہے۔ لوگوں کی حرکات و سکنات یا پسند نا پسند کا ڈیٹا کہیں نہ کہیں مرتب ہورہا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ موبائل، کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر کسی نہ کسی صورت ہمارے سامنے آتا ہے۔ دفاتر میں بھی ایسا لگتا ہے کہ آپ ڈیٹا کے سمندر میں غوطے کھارہے ہیں اور ڈوبنے لگے ہیں۔ 

اس کے علاوہ ہر سیکنڈ میں ہزاروں کی تعداد میں ٹوئٹس، انسٹاگرام پر فوٹو پوسٹ، فیس بک پر نئی پوسٹس، ای میلز اور اسکائپ وغیرہ پر کالز کی جاتی ہیں۔ ہر سیکنڈ میں 50ہزار سے زائد گیگا بائٹس انٹرنیٹ ٹریفک استعمال ہوتا ہے۔ ہر سیکنڈ میںگوگل پر کی جانے والی سرچز اور یوٹیوب پر دیکھی جانے والی ویڈیوز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ دنیا میں کل ویب سائٹس کی تعداد دو ارب کے قریب ہے، جس میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

عالمی ڈیٹا اسٹور کرنے کی صلاحیت

سائنسدانوں نے اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ انسان دنیا میں موجود بے شمار اطلاعات کو کس حد تک اسٹور کر سکتا ہے۔ ’سائنس‘ جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اندازہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 2020ء تک دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز میں اسٹوریج کی صلاحیت 44ہزار800 ایگزابائیٹ ہوجائے گی۔ جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سائنسدان ڈاکٹر مارٹن ہلبرٹ کے مطابق اگر ہم آج تمام اطلاعات لے کر انہیں کتابوں میں جمع کریں تو ان کتابوں کا انبارامریکا یا چین کے رقبے کے برابر تک پھیل جائے گا۔

کمپیوٹر میں انفارمیشن جمع کرنے کی پیمائش روایتی طور پر کلو بائٹس پھر میگا بائٹس اور گیگا بائٹس میں کی جاتی رہی ہے، اب ٹیرا بائٹس، پیٹا بائٹس اور ایکسا بائٹس بھی آ گیا۔ ایک ایکسا بائٹ ایک بلین گیگا بائٹس کے برابر ہے۔ تحقیق کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر معلومات سی ڈیز پر جمع کی جائیں تو سی ڈیز کا انبار چاند سے بھی اوپر پہنچ جائے گا۔

ویب سائٹس پر صارفین کا ڈیٹا

فیس بک، گوگل، ایمازون اور ٹوئٹر بھی صارفین کا ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے معمول کا طریقہ کار ہے۔ ٹوئٹر، پن ٹریسٹ اور لنکڈ اِن کے انٹرنیٹ صفحات پر بھی لائیک اور شیئر بٹن موجود ہیں، جبکہ گوگل کا اینالیٹکس نظام فیس بک سے مماثلت رکھتا ہے۔ انٹرنیٹ پر سماجی رابطے کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں کی اکثریت صارفین کی معلومات کو اشتہارات کے بہتر چناؤ کے لیے استعمال کرتی ہے۔

ڈیٹا کو سمجھنا

ڈیٹا سائنس ایک باقاعدہ تعلیمی مضمون کے طور پر اُبھر کر سامنے آچکی ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ڈیٹا کے سمندر میں غوطے کھاتے انسان کو اسے سمجھ کر اس کے نتائج کی روشنی میںکاروباری، معاشی اور سماجی فیصلے لینے ہوں گے۔ ڈیٹا سائنس، ریاضی اور معاشیات کا مجموعہ ہے، جس کے ذریعے اعداد وشمار کا تجزیہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔آن لائن معلومات کے بے تحاشا بہاؤ کے باعث، آنے والے دنوں میں ڈیٹا سائنس کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل بن جائے گا۔

گوگل ’ ڈیٹا لی‘ ایپ

گوگل کی اسمارٹ اور سادہ اینڈرائیڈ ایپ ڈیٹا لی (Datally) اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کو موبائل ڈیٹا سمجھنے، کنٹرول کرنے اور اس کی بچت میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ڈیٹا لی دنیا بھر میں اسمارٹ فونز استعمال کرنے والوںکے اہم مسئلے یعنی ڈیٹا کے استعمال کو آسان بناتی ہے۔ گوگل نے دنیا بھر میں اسمارٹ فونز استعمال کرنے والوں کی جامع تحقیق کے بعددریافت کیا کہ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ڈیٹا کا ختم ہونا ہے۔

یہ خصوصی طور پر آن لائن ہونے والی اس نئی نسل کا انتہائی اہم مسئلہ ہے جنہیں نیکسٹ بلین یوزرز (Next Billion Users) کہا جاتا ہے۔ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے یہ افراد نا صرف ڈیٹا کے بیلنس کے بارے میں مسلسل فکر مندرہتے ہیں بلکہ اس بات کو بھی نہیں سمجھ پاتے کہ ان کا ڈیٹا کہاںاور کیسے استعمال ہو رہا ہے اور نا ہی وہ ان ایپس کے لیے ڈیٹا کی ایلوکیشن پر اپنا کنٹرول رکھ سکتے ہیں، جن کی انہیں واقعی ضرورت تو ہے لیکن سمجھ نہیں۔

بگ ڈیٹا

توقع کی جارہی ہے کہ بگ ڈیٹا کی دنیا 2025ء تک حیرت انگیزطور پر 163 پیٹا بائٹس یعنی 163ٹریلین گیگا بائٹس تک پہنچ جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک زیٹا بائٹ کتنی بڑی ہے؟ اس کا اندازہ یوں لگالیں کہ ایک زیٹا بائٹ میں تقریباً2ارب سال کی موسیقی ذخیرہ ہوسکتی ہے۔ بِگ ڈیٹا کو لاگو کرنے کے لئے بہت سارے تصورات اور نظریات موجود ہیں ،تاہم بگ ڈیٹا پر کام اور تجزیہ کرنا اب بھی عام طور پر بڑا مشکل اور وقت طلب ہے۔ خوش قسمتی سے ، جس شرح پر ڈیٹا ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے ، ان مشکلات کو اگلے تین سال میں کم کیا جاسکتا ہے۔ 

اسی لئے مزید کاروباری شعبے مستقبل کی کامیابی کیلئے بِگ ڈیٹا کو اپنانے کے منصوبے وضع کررہے ہیں۔ ٹیلی کام اور آئی ٹی انڈسٹری سمیت دنیا بھر کے بزنس طبقے کو ڈیٹا سائنسدان چاہئیں جو بِگ ڈیٹا کے حوالے سے ان کی مشکلات آسان کرسکیں، لیکن اکیسویں صدی کی اس پُرکشش ترین ملازمت کا حصول اور ا س کی تعلیم بھی آسان نہیں۔

تازہ ترین