پاکستان سے 15 سال غیر حاضر رہنے کے بعد علامہ صاحب الیکشن رکوانے کا مضموم مشن لیکر آندھی اور طوفان کی طرح لاہور تشریف لائے اور مینار پاکستان پر جلسہ کرکے ملکی سیاست میں ہل چل پیدا کردی۔ علامہ صاحب اپنے اہداف اور مقاصد کے بارے میں قوم کو کوئی واضع پروگرام نہ دے سکے وہ صرف انتخابات کو ملتوی کروانے اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کو اپنا مقصود بنا بیٹھے۔ اس کا ادراک کئے بغیر کہ یہ مطالبہ موجودہ لولی لنگڑی جمہوریت کو مزید کتنا نقصان پہنچائے گا۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں جن میں مسلم لیگ ن نمایاں ہے، زرداری حکومت کو اس لئے برداشت کیا کہ جمہوریت کا تواتر نہ ٹوٹے اور یہ گاڑی پٹڑی سے نہ اتر جائے جس کا نتیجہ دوبارہ آمریت ہوگا۔ میاں صاحب نے زرداری حکومت کو جاری رہنے میں روڑے نہیں اٹکائے اور اسے اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا۔ یہ مدبرانہ طرز عمل تھا۔ میاں صاحب سیاست سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں ایک مدبر کے روپ میں نظر آئے ظاہر ہے ان کے مخالفین نے اس طرز عمل کا منفی نتیجہ اخذ کیا اور اسے میاں صاحب کی فرینڈلی اپوزیشن قرار دیا،اگر میاں صاحب جوڑ توڑ کر کے زرداری حکومت گرادیتے تو ان کے ساتھ بھی یہی سلوک متوقع تھا۔ ملک اس اکھاڑ پچھاڑ کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ زرداری حکومت مظلوم بن کر اپنے تمام کارہائے بد کا جواز یہ پیش کرتی کہ ہمیں حکومت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
قوم نے زرداری حکومت کو پورا پورا موقع دیا کہ وہ کوئی نیک کام کر سکے لیکن ان کی مخلوط حکومت نے سوائے کرپشن، اقربا پروری، نااہلی اور عدالتوں کے فیصلوں کی توہین کے کچھ نہیں کیا۔ قوم لوڈشیڈنگ، بے روزگاری مہنگائی اور دہشت گردی کے عذاب برداشت کرتی رہی۔ علامہ صاحب کو قوم کی ان مشکلات کا ذرا بھر احساس نہ ہوا وہ کینیڈا کی ٹھنڈی ہواؤں میں عیش و عشرت کی زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے اور الیکشن کمیشن کی تشکیل ہونے کے بعد حضرت صاحب کو یک دم پاکستان اور اس کے مظلوم شہریوں کا خیال آگیا اور مولانا ملک کی خدمت کا جذبہ لیکر اکھاڑے میں کود پڑے اور الیکشن رکوانے کے لئے جہاد شروع کردیا۔
علامہ صاحب ایک مذہبی تنظیم کے سربراہ ہیں جو اچھے دینی کاموں میں مصروف ہے پوری دنیا میں اس جماعت کی شاخیں ہیں جہاں وہ ترویج اسلام کا نیک فریضہ انجام دے رہی ہے۔ دینی مدارس چلا رہی ہے۔ کیا یہ نیک کام شیخ الاسلام کی کارکردگی اور نیک نامی کے لئے کافی نہیں۔ موصوف کو سیاست کے کوئے ملامت میں دوبارہ داخل ہونے کی کیا ضرورت تھی۔اس کے عوامل کچھ مشکوک نوعیت کے ہیں، علامہ صاحب جنرل پرویز مشرف کے مداح تھے۔ ان کے دور میں قومی اسمبلی کی نشست بھی جیتی اور توقع کرتے تھے کہ انہیں وزرات عظمیٰ کا عہدہ مل جائے گا۔ لیکن یہ امید پوری نہ ہوئی تو قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوکر کینیڈا کو اپنا وطن بنا لیا۔ جہاں کے اب وہ رہائشی اور شہری ہیں۔ ان کا Domicil کینیڈا کا ہے، شہریت کینیڈا کی ہے۔ پاکستانی سیاست سے اتنا لگاؤ کیوں؟
لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شاطرِ اعظم جناب زرداری صاحب کی ایک سیاسی چال ہے جو دلی طور پر الیکشن کروانے کے خواہشمند نہیں کیونکہ ان کا نامہ اعمال کارہائے خیر سے خالی ہے اور ان کی مخالفت کی شدید لہر ملک بھر میں چل رہی ہے۔ اس لئے موجودہ حالات میں الیکشن ان کے حق میں نہیں ہونگے اس لہر کو دبانے کے لئے تھوڑا عرصہ درکار ہے۔ لیکن اس خواہش کا اظہار وہ برملا نہیں کر سکتے۔ انہوں نے علامہ صاحب کی نواز مخالفت کو مشترکہ مقصد بنا کر میاں صاحب کے حکومت بنانے کے راستے کو روکنے کے لئے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے۔ حالیہ حالات اور علامہ صاحب کی بدحواسیاں دال میں اس کالے کی نشان دہی کرتی ہیں۔ علامہ صاحب کو ایم کیو ایم کی سپورٹ بھی اس مفروضے کو تقویت دیتی ہے۔
علامہ صاحب اپنے ڈراموں میں ناکامیاب ہونے کے بعد بھی حوصلہ نہیں ہارے۔ وہ اب ایک مضحکہ خیز دعویٰ کر رہے ہیں کہ دس مرتبہ بھی انتخابات کرائے جائیں تبدیلی نہیں آئے گی۔ کیا یہ شیخ الاسلام کا فیصلہ ہے اور یہ اطلاع انہیں عالمِ غیب سے آئی تو ہم اس پر یقین کرلیں گے کیونکہ خدا کی مرضی کے خلاف تو سوچا بھی نہیں جا سکتا،لیکن اگر یہ دعوی دنیا داری کا علم رکھنے والے علامہ اور دنیاوی علوم کی تحقیق رکھنے والے ڈاکٹر اور قانون دان کی حیثیت سے کئے گئے اس دعوے کو عقل سلیم ماننے سے قاصر ہے۔ الیکشن نام ہی تبدیلی کا ہے۔ اکثر اوقات ایک پارٹی اکثریت کھو دیتی ہے اس کی جگہ دوسری پارٹی اکثریت حاصل کر لیتی ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے کہ دس بار انتخابات میں ہر پارٹی اپنی حیثیت برقرار رکھ سکے۔ ہم چونکہ علامہ صاحب کے علمی مرتبے کا اعتراف کرتے ہیں اس لئے ان کے مرتبے کے عالم سے اس قسم کے کم عقلی پر مبنی بیانات کی توقع نہیں کر سکتے۔ یہ کوئی معمولی سیاسی کارکن ایسا بیان دے تو اسے معاف کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہی نہیں۔
ہم عالی مقام شیخ الاسلام ڈاکٹر پروفیسر علامہ طاہر القادری سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے مرتبے اور مقام کا خیال رکھتے ہوئے اس گندی سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں کیونکہ یہاں پگڑی اچھلنی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔ شیخ الاسلام اپنی ٹوپی اور جامعہ کا خیال کریں۔ الدعی الخیر