• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اور اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پاکستا ن ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مابین سیاسی تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں طرف کے رہنماؤں کے بیانات میں سختی اورتلخی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ملک سیاسی تصادم کی جانب گامزن ہو رہا ہے۔ اس سیاسی لڑائی میں فریقین اور ان کی پشت پناہی کرنےوالوں کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگا کر اپنی مرضی کے نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں یہ اپروچ انتہائی خطرناک ہے۔

فریقین کے ساتھ ساتھ ’’غیر جانبدار‘‘ حلقوں کو بھی وسیع تر تناظر میں حالات کا ادراک کرنا چاہئے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایک فریق بوجوہ کمزور ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرا فریق قدرے مضبوط پوزیشن میں ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے معروضی سیاسی تصادم میں تمام فریقین بہت کمزور ہیں۔ اس کے داخلی اور خارجی اسباب ہیں۔ لہٰذا تصادم سے گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہو گا، جس پرچل کر ملک کو مزید بحرانوں سے بچایا جا سکتا ہے۔

اپنی طاقت کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمی کا شکار حکمران دکھائی دیتے ہیں۔ وہ حلقے اس قدر غلط فہمی کا شکار نہیں ہیں، جن کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی قوتیں ماضی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہیں ہیں۔ یہ صورت حال صورت پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ پوری دنیا خصوصاً تیسری دنیا کے ساتھ ہے۔ سامراجی، استحصالی اور غیر جمہوری طاقتوں کے خلاف کوئی بڑی عالمی تحریک نہیں ہے۔ عالمی تحریکوں کے داخلی سیاسی تحریکوں پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بائیں بازو کی سیاست بہت کمزور ہوئی ہے۔ لبرل اور سوشل ڈیمو کریٹک سیاسی جماعتوں کا عوام اور کارکنوں سے بھی رابطہ کمزور ہوا ہے۔ نظریہ اور سیاسی عمل بھی نہیں ہے۔ ایسی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد کسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی نہیں کر سکیں یا انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ دوسری طرف وہ بدعنوانی میں بھی مبینہ طور پر ملوث رہی ہیں، ایک منصوبہ بندی کے تحت انہیں کرپٹ بھی کیا گیا ہے۔ دائیں بازو کی معتدل سیاسی جماعتیں بھی اس عرصے میں کوئی بڑی تحریک نہیں چلا سکیں اور وہ بھی اقتدار میں آکر پیسے کمانے کے لیے مبینہ طور پر اسی ڈگر پر چلتی رہیں۔ اس عرصے میں انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے لیے خلا پیدا ہوا اور سماج کو غیر سیاسی بنانے کی کوششوں میں لوگ ان کی طرف راغب ہوئے ۔

مذکورہ بالا تمام عوامل کے باوجود دوسرے فریق کے حالات بھی بہتر نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی حالیہ کارکردگی سے وہ ساری سیاسی اسکیم ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے، جس پر گزشتہ دو عشروں سے کام کیا جا رہا تھا۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔ معیشت کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کو مصنوعی طریقے سے روکا جار ہا ہے۔ ادائیگیاں روک کر انہیں ٹیکس وصولی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں (پی ڈی ایم )نے کورونا کی صورت حال اور حکومتی رکاوٹوں کے باوجود، ملتان میں سیاسی طاقت کا بڑا مظاہرہ کیا ہے۔ ان حالات میں یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ سیاست کے کمزور ہونے کے جن عوامل کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان کا اطلاق پی ٹی آئی پر بھی ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اپوزیشن کو کرپٹ کہہ کہہ کر سیاست کو گالی بنا دیا ہے۔ اس سے خود پی ٹی آئی بھی کمزور ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی اپنی حکومت کی کارکردگی کے بعد سیاسی طور پر اس اپوزیشن کا مقابلہ نہیں کر سکے گی، جسے کمزور کیا جا رہا ہے۔

جہاں تک ’’امپائرز‘‘ کا معاملہ ہے، حالات اب پہلے والے نہیں رہے۔ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے چند سال قبل ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویوز کی بعض باتیں حقائق پر مبنی اور قابل غور ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ 1947ء سے 1989ء تک پاکستان امریکا کا انتہائی قریبی اتحادی رہا کیونکہ پاکستان سوویت یونین کے خلاف سارے کام کر رہا تھا۔ 1989 ء سے 2001 ء تک پاکستان امریکا کا ایسا اتحادی تھا، جس پر بعض پابندیاں عائد کی گئیں۔ اب امریکا نے پاکستان کے دشمن بھارت کے ساتھ تزویراتی شراکت داری (اسٹرٹیجک پارٹنر شپ) کر لی ہے، جو سرد جنگ کے زمانے میں سوویت کیمپ میں تھا۔ پاکستان کو مسائل میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ ‘‘پرویز مشرف کی ان باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان کی مقتدر قوتیں اب امریکا کی ضرورت نہیں رہی ہیں، وہ شاید امریکا مخالف کیمپ کی بھی ضرورت نہیں ہیں۔ ماضی میں سیاست میں جو من مانی ہوتی تھی۔ اب اگر کی گئی تو نہ صرف پاکستان کے لیے خارجی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ داخلی اور معاشی بحران بھی وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جائے گا ۔ لہٰذا سیاست کو مزید گالی بنانے، سیاست کو کمزور کرنے اور سیاسی تصادم کی پالیسیوں سے گریز کیا جائے اور ایسا کوئی راستہ نکالا جائے، جس سے پاکستان سیاسی وژن کے ساتھ ان بحرانوں سے نکل سکے ۔

تازہ ترین