ہر طرف سازش اور شک کا دور دورہ ہے، جب ریاست میں قانون کی عملداری اور انصاف کی بالا دستی نہ ہو تو سازش اور شک کا کلچر پروان چڑھتا ہے، ہر ایک کو دوسرے پر شک ہے کہ وہ اُس کے خلاف سازش کر رہا ہے۔
وزیراعظم کو علانیہ شک ہے کہ اپوزیشن اُن کے خلاف سازش کر رہی ہے، اپوزیشن کو شک ہے کہ حکومت، اپوزیشن کے خلاف سازش کر رہی ہے اور اُس کی طاقت کو مٹانے کے درپر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو حکومت اور اپوزیشن دونوں پر شک ہے، اپوزیشن پر اُسے شک ہے کہ یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو لڑا کر اُنہیں الگ الگ کرنا چاہتی ہے تاکہ دونوں کمزور ہو جائیں۔
اسٹیبلشمنٹ کو حکومت سے گلہ ہے کہ وہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو آمنے سامنے لاکر خود کو محفوظ بنانا چاہتی ہے۔سازش اور شک کے اِس ماحول میں جہاں پارٹیاں اور ادارے ابنارمل ہو جاتے ہیں وہاں سازش اور شک افراد کو بھی غیرمحفوظ بنا دیتا ہے۔
مریم نواز شریف کو اُن کے کسی بہی خواہ نے اطلاع دی ہے کہ انتہائی اعلیٰ سطح پر اُن کو جان سے مار دینے کی سازش سوچی جا رہی ہے، اُنہیں شک ہے کہ اُنہیں فضائی حادثے میں پار لگانے یا پھر سازش سے ہٹا دینے کے بارے میں باتیں کی جا رہی ہیں۔
مریم نواز اِس طرح کی اطلاعات کو صرف دھمکی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی سمجھنے میں حق بجانب ہیں، جب ماحول ہی شک اور سازش کا ہو تو ایسے میں مریم نواز شک کو حقیقت کیوں نہ سمجھیں؟
جب شفافیت نہیں ہوتی، جبر اور ظلم کی دھند چھائی ہوتی ہے تو پھر سوشل میڈیا پر خادم حسین رضوی، جج ارشد ملک اور جسٹس وقار سیٹھ کی موت بھی مشکوک بن جاتی ہے، یہی نہیں قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک کے واقعات سازش اور شک کی داغدار چادر سے ڈھکے ہوئے ہیں۔
بیمار قائداعظم محمد علی جناح کو سازش کے تحت خراب ایمبولینس بھیجی گئی اور ملک کا بانی کئی گھنٹے سڑک پر دوسری ایمبولینس کا انتظار کرتا رہا۔ شک کا پھن پھیلائے سانپ ہمارے دو وزرائے اعظموں لیاقت علی خاں اور بےنظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے اندر اور باہر قتل کو بھی سازش قرار دے تو اسے حقیقت مانے بغیر چارہ نہیں۔
اِسی طرح ایک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی اور دوسرے کئی وزیراعظموں کی اسمبلیوں کو صدور اور عدالتوں کے ذریعے جبراً قتل پر اگر ایک سازش اور شک کا الزام لگے تو کون اِس سے انکار کرے گا؟ اِسی طرح یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلوں کے ذریعے اُنہیں وزارتِ عظمیٰ سے نکالنے کو سازش اور شک کے زمرے میں شامل کئے جانے کے علاوہ چارہ کار کیا ہے؟
شک اور سازش کی عمومی صورتحال کے باوجود ریاست سے یہ سوال اُٹھانا پڑتا ہے کہ ریاست کا پہلا فرض تو فرد کے جان و مال کی حفاظت ہے، ایسے میں مریم نواز کو اگر حکومت اور ریاست سے ہی اپنی جان کا خطرہ ہو تو کون ہے جو اُسے دلاسہ دے اور کون ہے جو اُسے اِس پریشان کن صورتحال سے امان دے؟ نہ یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے غیرجانب دار نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی عدل و انصاف فراہم کرنے والے ایوانوں پر مسلم لیگ ن کا اعتماد ہے۔
جب اداروں پر اتفاقِ رائے نہ ہو، نہ ہی کوئی ضمانتی یا متفق علیہ ہو، ہر کسی کو دوسرے پر شک اور سازش کا گمان ہو تو پھر گھڑمس، تصادم اور کشمکش سے کیسے بچ سکیں گے؟ میری رائے میں کسی ریاست کے جمہوری اور انصاف پسند ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہاں اقلیتوں اور مخالفوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
مریم نواز کے والد لندن میں، چچا اور چچا زاد بھائی یعنی شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف جیل میں ہیں، وہ اپوزیشن کی اہم رہنما ہیں، اکیلی جنگ لڑ رہی ہیں، اگر ایسے میں اُنہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں یا واقعی اُنہیں جان سے مارنے کی سازش ہو رہی ہے تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
میرے خیال میں تو ریاست کے اعلیٰ ترین عہدیداروں اور وزیراعظم کو خود یہ اعلان کرنا چاہئے کہ مریم نواز کی جان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اور جو کوئی، جس بھی سطح پر اس بارے میں سوچ رہا ہے، اُس کا احتساب کرنا چاہئے۔
حکومت اور ریاست یہ موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ مریم نواز کو محض وہم ہے، اُن کا شک ناجائز ہے، حکومتی یا ریاستی سطح پر اُنہیں مارنے کی کوئی سازش نہیں ہو رہی مگر کیا اتنا کافی ہے؟ مجھے ذاتی طور پر یقین ہے کہ ریاستی اور حکومتی عہدیداروں میں اِس وقت کوئی بھی ایسا نہیں جو مریم نواز کی جان لینے کا ارادہ کرے لیکن ریاست اور حکومت کے دشمن غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے ایسے وسوسے اور شک تو ڈال سکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ حکومت، اپوزیشن پر سازش کا جو الزام لگا رہی ہے، وہ بھی صرف شک ہو اور اپوزیشن، حکومت سے جن سازشوں کا سامنا کر رہی ہے وہ بھی محض شک ہوں مگر فرض کریں کہ ریاست کے کسی ادارے یا ملک کے کسی فرد کے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا، کسی سازشی نے، کسی ملک دشمن نے، کسی غدار نے، کسی لڑائی کروانے والے نے بےنظیر بھٹو جیسا کوئی نیا حادثہ کر دیا تو پھر ذمہ داری کون لے گا؟
عظیم قومیں اپنے کارناموں اور غلطیوں دونوں سے سیکھتی ہیں، ہمیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے اپنے مستقبل کو بہتر بنانا ہے تو غلطیوں کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔
بےنظیر بھٹو کا قتل ہماری اجتماعی غلطی ہے، ریاست نے محترمہ کی حفاظت کا فریضہ حرزِ جان سمجھ کر پورا نہیں کیا، حکومتِ وقت نے اطلاعات ہونے کے باوجود سربراہِ مملکت جیسا سیکورٹی باکس بنانے پر توجہ نہیں دی، عوام نے محترمہ کی سیکورٹی کو یقینی نہ بنانے پر حکومت اور ریاست کا احتساب نہیں کیا، اور تو اور پارٹی کے رہنمائوں نے بھی محترمہ کو گاڑی سے نکلنے کی اجازت دیدی حالانکہ اُنہیں محترمہ کو روکنا چاہئے تھا۔
اجتماعی غلطیوں کا کفارہ تبھی ادا ہو سکتا ہے کہ دوبارہ سے وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں، ہم نے جو سلوک مشرقی پاکستان کے ساتھ کیا وہی سلوک چھوٹے صوبوں سے کرینگے تو نتیجہ بھی وہ ہی نکلے گا جو بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا۔ اِس اجتماعی غلطی سے یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ صوبوں کے ساتھ مساوی اور منصفانہ سلوک کیا جائے تاکہ دوبارہ ایسی غلطی کا اعادہ نہ ہو سکے۔بےنظیر بھٹو کے قتل کی اجتماعی غلطی کا کفارہ تبھی ادا ہو سکتا ہے کہ آئندہ ملک کے لیڈر چاہے وہ حکومتی ہوں یا اپوزیشن کے ہوں، اُن کے جان و مال کی حفاظت کا فریضہ ریاست پوری ذمہ داری سے ادا کرے، اگر وزیراعظم اور وزراء قوم کے شعور کا اجتماعی اثاثہ ہیں تو اپوزیشن کے لیڈرز کو بھی عوام کی حمایت حاصل ہے۔ وہ بھی اجتماعی اثاثے کا اہم ترین جزو ہیں، اس لئے ریاست، سیاست سے بالاتر ہو کر اپوزیشن لیڈرز کی پوری طرح حفاظت کرے۔
بھارت میں اپوزیشن لیڈرز کو ریاست سیکورٹی فراہم کرتی ہے، امریکہ میں بھی حکومتی اور اپوزیشن دونوں لیڈرز کو سرکاری سیکورٹی ملتی ہے، حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن لیڈرز کی جان کی حفاظت بھی ریاست کا فریضہ ہے، اِس فریضہ میں ریاست کی کوتاہی برداشت نہیں کی جانی چاہئے۔
کیا قیامِ پاکستان کے سات دہائیوں بعد اب وہ وقت نہیں آگیا کہ اپوزیشن کی لیڈر مریم نواز کی جان کی حفاظت بھی اتنی ہی اہم ہو جتنی وزیراعظم عمران خان کی، یا پھر بلاول بھٹو کی جان کی بھی حفاظت ویسے ہی کی جائے جیسے صدر پاکستان عارف علوی یا بڑے بڑے ریاستی عہدیداروں کی کی جاتی ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)