• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ معجزہ کیا ہے ؟آپ ایک قبائلی کی مثال لیں، جسے انٹرنیٹ اور کیمرے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ۔ آپ کہیں بہت دور رہنے والے اس کے عزیز سے وڈیو کال پر اس کی بات کروادیں ، وہ پاگل ہو جائے گا ۔آپ کے خیال میں جو لوگ تصویر ، چمکتے ہوئے پتھر اور آواز دیتے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کر دیتے تھے، اگر ان کے سامنے ٹی وی رکھ دیا جاتا تو کیا وہ اسے اپنا دیوتا نہ بنا لیتے؟ خدا کی طرف سے جو ناقابلِ یقین معجزات رونما ہوتے ہیں ،انہیں اس زمانے کے لوگوں کی عقل تسلیم نہیں کر سکتی لیکن آج اس ترقی یافتہ سائنسی دور میں کسی حد تک انہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے آپ کسی چیز کی نقصان دہ خصوصیت کو ختم کر سکتے ہیں ، جب کہ اس کی فائدے مند خصوصیات باقی رہتی ہیں ۔ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوہا مضبوط اتنا ہی ہوگا لیکن اس کا وزن ختم ہو جائے گا ۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا ، جب آگ کی ظاہری شکل و صورت یہی رہے گی لیکن آپ کو وہ جلانا بند کر دے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ نینو لیول پر جا کر اس کی خصوصیات میں تبدیلی پیدا کریں ۔ اس کے بعد آپ یہ آگ اپنے شیر خوار بچے کو کھیلنے کے لیے بھی دے سکتے ہیں ۔

دنیا کے ایک سرے سے، ہم دوسرے کونے میں ای میل بھیجتے ہیں توایک سیکنڈ کے اندر وہ موصول ہو جاتی ہے۔ ڈیٹا حیرت انگیز رفتار سے حرکت کرتاہے ۔ روشنی کی رفتار تقریباً تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ روشنی کی رفتار وہ آخری حد ہے، جس سے تیز رفتار سفر کبھی ممکن نہ ہو گا۔خدا کے ہاں رفتار کے پیمانے مختلف ہیں۔ وہ توانائی اور روشنی کا خالق ہے۔ اسی توانائی کا، جس سے ہر قسم کے مادہ، لوہا، سونا، چاندی، تیل،آکسیجن اور خود انسانی جسم کو بنانے والے عناصر نے جنم لیا۔ وہ چاہے تو فزکس اور ریاضی کے قوانین کو تلپٹ کر سکتاہے۔آج ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں کے مرکز میں جو بلیک ہو ل ہے، وہ کس قدر خوفناک کششِ ثقل کا مالک ہے؟ اس قدر کہ اس کے گرد بارہ سورج ناقابلِ یقین رفتار سے حرکت میں ہیں۔ ان میں سے ایک کی رفتار ایک کروڑ اسّی لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

انسان اگر آج نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے عناصر کی بنیادی خصوصیات میں تبدیلی کے قابلِ ہو ا تو خدا ہمیشہ ہمیشہ ہی سے اس پہ قادرہے ۔ آج کا انسان اب وہاں پہنچ رہا ہے۔استاد پروفیسر احمد رفیق اختر کے الفاظ میں خدا بھی اسی ٹیکنالوجی کی سب سے اعلیٰ شکل استعمال کرتاہے، جس کی ادنیٰ اقسام ہم انسانوں کے زیرِ تصرف ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہمارا اپنا جسم ہے۔ یہاں دماغ سے احکامات برقی رو کی شکل میں جسم کے ایک ایک عضوتک پہنچتے ہیں۔ وہی برقی رو جو ہمارے گھروںکو روشن رکھتی ہے۔ استاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ سائنس ہر اس معجزے تک ضرور پہنچے گی، جو گزرے ادوار کے انبیاؑ خدا کے حکم سے بجا لاتے رہے۔

خدا چاہے تو حضرت موسیٰ ؑ کا عصا جو کہ لکڑی کے ایٹموں پر مشتمل ہے، وہ اژدھے کی ایٹمی ساخت حاصل کر سکتاہے۔ آپ کے خیال میں اژدھا کیا ہے؟ انسان کی طرح وہ بھی ہائیڈروجن، آکسیجن، کیلشیم، اور کاربن وغیرہ پہ مشتمل ہے۔ عصا سارے کا سارا کاربن سے بنا ہوتا ہے ۔خدا اگر ان ایٹموں کی ترتیب بدل دے تو کیلا ڈائنو سار بن جائے ۔آج انسان اس قابل ہو چکا ہے کہ لیبارٹری میں کاربن کے ایٹم کو آکسیجن کے ایٹم میں بدل سکتاہے ۔ایٹموں میں ترتیب قائم ہے تو ہائیڈروجن، آکسیجن اور کاربن وغیرہ کا مجموعہ انسان کی شکل میں زمین پر دندنا تا پھرے گا۔ اگر اس ترتیب میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو وہ مٹی کا ایک ڈھیر بن جائے گا۔ آپ خود ان عناصر ہائیڈروجن، آکسیجن، کاربن، کیلشیم اور فاسفورس وغیرہ کی وہ مطلوبہ مقدار لیجیے، جوانسانی جسم کے بنیادی اجزا ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے اوپر تلے رکھیے۔ آپس میں گڈ مڈ کر دیجیے لیکن آپ انسان تخلیق کرنے میں کامیاب نہ ہوں گے۔

آپ کے خیال میں قیامت کیا ہے؟ قرآن کہتاہے کہ سورج چاند ایک ہو جائیں گے۔ خوفناک زلزلے برپا ہوں گے اور زمین اپنے اندر کی اشیا نکال پھینکے گی۔سائنس یہ بتاتی ہے کہ سورج اپنے اختتام پر پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ وہ زمین کے قریب آئے گا۔ یہاں زلزلے برپا ہوں گے۔ سورج کی خوفناک گرمی اور کششِ ثقل کے تحت زمین پگھل جائے گی اور اس کے اندر کی اشیا باہر نکل آئیں گی۔ فرق صرف یہ ہے، جو اب تک سمجھ نہ آتا تھا کہ اس سب حادثے کے آغاز سے اختتام تک تو دو تین ارب سال درکار ہیں۔ پھر یہ یکایک کیسے ہو گا۔

جواب سادہ ہے، معجزہ۔ سورج کی ساری ہائیڈروجن کو حکم ملے گا کہ رفتہ رفتہ اور بتدریج کی بجائے، ایک ہی ساعت میں ساری کی ساری ہائیڈروجن ہیلیم میں تبدیل ہو جائے۔ یہ ارب ہا ارب ایٹم بموں کے پھٹنے کے مساوی ہو گا۔ سورج کا ایندھن ختم ہو جائے گا۔ وہ فنا ہونے لگے گا اور پھیل جائے گا۔ زمین کے قریب آجائے گا۔ عطارد، زہرہ اور ہمارے چاند کو نگل جائے گا۔ ادھر زمین پر یہ حالت ہوگی جو سورۃ الحج میں خدا نے ارشاد فرمائی ہے۔’’اے انسانو، اپنے رب سے ڈرو۔ بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی عظیم شے ہے جس دن تو ہر دودھ پلانے والی کو دیکھے گا کہ اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گااور لوگ تجھے اس طرح دکھائی دیں گے، گویا وہ نشے میں ہیں؛حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی ایسا شدید ہو گا‘‘۔ الحج،1، 2۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین