افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گزشتہ روز افغان خفیہ ایجنسی کے دفتر پر خود کش حملے اور فائرنگ کا واقعہ جس میں تیس افراد ہلاک اور 327زخمی ہوگئے بلاشبہ نہایت افسوسناک ہے۔ پاکستان کے شہر مردان میں بھی گزشتہ ہی روز ایک سرکاری دفتر پر خودکش حملے اور فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں ایک شخص جاں بحق اور 17افراد زخمی ہوئے۔ کابل میں ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ داری تحریک طالبان نے جبکہ مردان حملے کی ذمہ داری جماعت الاحرارنے قبول کرلی ہے۔افغانستان میں طالبان نئے حملوں کی مہم کا باقاعدہ اعلان کرچکے ہیں جبکہ پاکستان میںبھی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے باوجود وقتاً فوقتاً خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی وارداتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ صورت حال کا تقاضا ہے کہ دونوں ملک قیام امن اور دہشت گردی سے نجات کے لیے ناقابل شکست عزم اور حوصلے کے ساتھ مشترکہ اقدامات عمل میں لائیں۔لیکن افغان حکام کی جانب سے بالعموم دہشت گردی کی ہر کارروائی کا الزام بلاثبوت پاکستان پر تھوپ کر امن کے لیے مشترکہ کاوشوں کو دشوار بنادیا جاتا ہے۔ کابل کے تازہ خود کش حملے کے بعد بھی افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اپنا دورہ اسلام آباد ملتوی کردیا ہے۔ان کا موقف ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان کے باہر کی گئی تھی۔ افغان حکام کا یہ طرز عمل بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ افغان حکمرانوںکے لیے یہ سادہ سی حقیقت ناقابل فہم نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار اور اس لعنت کے خلاف مصروف جہاد ہے، لہٰذا دہشت گردی کا الزام پاکستان پر عائد کرنا یا اپنے طرز عمل سے ایسا تاثر دینا فی الحقیقت دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کرناہے۔ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مذاکراتی عمل کی راہ ہموار کرنی ہو یا طاقت کا استعمال کرنا ہو ، کامیابی کو یقینی بنانےکیلئےدونوں ملکوں کے باہمی اعتماد اور تعاون کو ٹھیس پہنچانے والے ہر اقدام سے اجتناب لازمی ہے۔