2018ءکے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی عمران خان کی حکومت کا اقتدار اپنے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہے مگر ابھی تک عمران خان کے اقتدار کو سہارا دینے والے اس کے حلیف بھی خوش نظر نہیں آتے اورمہنگائی کی زد میں آنے والے عوام کی تنقید میں برابر حصہ بٹا رہے ہیں۔
اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم حکومت کو جنوری تک گھر بھیجنے کا دعویٰ کر رہا ہے گوجرانوالہ،کوئٹہ،پشاور اور ملتان میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسوں کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن الگ الگ دعوے کر رہی ہیں۔
حکومت کہتی ہے کہ عوام نے کرپشن کے الزام میں مسترد کی گئی ن لیگ اور پی پی پی کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کو بھی مسترد کر دیا ہے مگر حکومتی مشنری کو بھر پور انداز میں استعمال کرنے کے باوجود بھی جلسوں میں عوام کا جم غفیر اپوزیشن کے ان دعووں کی حمایت کرتا ہے کہ عوام سلیکٹڈ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو مسترد کر چکے ہیں تاہم سیاسی گروآج بھی اس بات پر قائم ہیں کہ جب تک مقتدر حلقے عمران خان کے ساتھ ہیں حکومت کو چلتا کرنا مشکل ہو گا ،جلسے، جلوسوں اور مظاہروں سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوتیں۔
سیاسی گروتو یہ بھی کہتے ہیں کہ جس طرح اقتدار کے بڑے بڑے ایوانوں سے مسند اقتدار پر موجود وزیر اعظم کو اس کے بیٹوں اور بیٹی سمیت نا ہال قرار دے کر احتساب عدالتوں سے مجرم ثابت کیا اس سے تو یوں لگتا ہے کہ عمران خان اس وقت تک اقتدار کی زینت بنا رہے گا جب تک ’’ توسیع ‘‘چلتی رہے گی۔اگرچہ ہمار املک اور ہمارا خطہ خطرناک حالات میں گھرا ہوا ہے۔کووڈ-19 کی دوسری لہر بھی مسلسل اموات میں اضافہ کا موجب بن رہی ہے معیشت پہلے ہی قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے حالات وواقعات تشویش ناک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
سیاسی لڑائی میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی تکریم اور سیاسی روایات کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو برسر عام دشنام طرازی پر اتر آئے ہیں جس سے ملک میں میں امن عامہ کی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہونے کا بھی احتمال ہے،میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ اور قدغنیں لگی ہونے کے الزام سر اٹھا چکے ہیں، میڈیا میں بھی روز گار چھینے جانے کے خطرات پر کئی جگہ عمل ہو چکا ہے تاہم سوشل میڈیا توجہ حاصل کر چکا ہے مگر سوشل میڈیا میں ’’ یلیو جرنلز‘‘ ابھی تک طاری نظر آتا ہے۔
صحافت کے ’’ گرو‘‘بھی اب یہ اعتراف کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ سوشل میڈیا کو مثبت ذرائع ابلاغ بنانے کیلئے پرانے لوگوں کو بھی سوشل میڈیا کی طرف بڑھنا چاہیے تاکہ سوشل میڈیا پر بھی صرف حقائق کو جگہ مل سکے اور رائی کو پہاڑ بنانے والے مسترد ہوں-13 دسمبر کے یاد گار باغ میں پی ڈی ایم جلسہ کو ملتان کے جلسے کی طرح بارونق جم غفیر بنانے کیلئے تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر رہنے والے محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے جلسے کی تمام ترذمہ داری اور انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔
کارکنوں کے اجتماعات سے مختلف علاقوں میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، بعض حلقوں کی طرف سے مریم نواز اور مریم اورنگزیب کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، مقدمات کے اندراج کے بعدگرفتاریاں پولیس کی مجبوری بن جاتی ہیں، اگرچہ عدالتیں بھی سیاسی کارکنوں کو ریلیف دینا ضروری سمجھتی ہیں مگر پولیس مذاحمت کے مقدمات میں سیاسی کارکنوں کو جیل بھیجنا بھی قانونی تقاضا ہے۔وزیر اعظم نے دھمکی دی ہے کے جلسے کی اجازت نہیں دینگے منتظمین اور کرسیاں دینے والوں کے خلاف کورونا ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرینگے۔
دوسری طرف مریم نواز بھی وزیر اعظم کے اعلان کو گیدر بھبھکی قرار دیتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ جلسہ ضرور ہو گا مگر عمران خان کو این آر او نہیں ملے گا، چینی، آٹا اور پٹرول چوری کا حساب دینا ہو گا-بعض لوگ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے خطرے کی بھی نشاندہی کر رہے ہیں، جبکہ سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی عمران خان کو تابع دار خان کا خطاب دے چکی ہیں- اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس 8 دسمبر سے قبل نواز شریف اور زرداری کے مابین ٹیلی فونک رابطوں کو سیاسی اہمیت دی جا رہی ہے ، سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف اپوزیشن اتحاد میں کسی دراڑ کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ 13دسمبر کو جلسے سے قبل طے کی گئی حکمت عملی پر کاربند ہو سکیں- اپوزیشن کے استعفوں پر بغیر لگی لپٹی گفتگو کی جا رہی ہے۔
اپوزیشن کے بڑے قائدین کے خلاف نیب پہلے ہی متحرک ہے، وزارت داخلہ نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پندرہ روزہ دورے پر امریکہ جانے کی اجازت دے کر نفاق پیدا کرنے کی ایک اور کوشش کر ڈالی ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اس کی صاحبزادی اور صاحبزادوں کا سیاست میں واپسی کا راستہ تقریباً بند ہو چکا ہے، سپریم کورٹ نظرثانی کی اپیل بھی مسترد کر چکی ہے، باپ بیٹی کو سزا معطل کرکے ضمانت دینے والی اسلام آباد ہائی کورٹ بھی نواز شریف کو اشتہاری قرار دے چکی ہے، معاون احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے کا جائزہ لے رہا ہے اگر برطانیہ نواز شریف کو واقعی واپس کر دے گا تو کیا انہیں کوٹ لکھپت جیل نہیں بھیجا جائے گا، وزیر اعظم عمران خان روزانہ کی بنیاد پر اپنے اس عزم کو دہراتے ہیں کہ کرپشن میں ملوث کسی چور کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔
حکومت جاتی ہے تو جائے ،این آر او نہیں دوں گا، سیاسی حلقے برملا یہ کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ وزیر اعظم جن کے سہارے بھڑکیں مارتے ہیں وہ صرف 24 گھنٹے کیلئے سرپرستی چھوڑ کر غیر جانبدار ہو جائیںتو کئی شکاری اقتدار کے شکار کیلئے میدان میں نکل آئیں گے، وزیر اعظم کو اپنے وعدے پورے نہ کرنے کا الزام دے کر اقتدار سے ٹھوکر مار کر نکال باہر کرنے کی کوشش کریں گے۔
8 دسمبر کے پی ڈی ایم جلسہ میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی گفتگو خارج از امکان نہیں، ایک ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن مارچ سے قبل لانگ مارچ اور استعفوں کے راؤنڈکھیلے گی -مگر مقتدر حلقے اگر ایک پیج پر موجود رہے تو ان دونوں راؤنڈزکے کوئی نتائج نہیں نکلیں گے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ کے انتقال پر دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرح سینئر پارلیمنٹیرین چودھری نثار علی خان بھی جاتی عمرہ گئے۔
شہباز شریف سے تعزیت کے ساتھ ساتھ سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جس کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ چودھری نثار علی خاں نواز شریف کو بھی فون کرکے ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کریں گے مگر لیگی قائدین کی اس خواہش اور کوشش کو سند نہ مل سکی، مخالفین کا کہنا ہے کہ چودھری نثار علی خاں نے نواز شریف کی اہلیہ کے انتقال پر نواز شریف اور مریم نواز سے تعزیت نہ کرکے جس قطعہ تعلقی کی بنیاد رکھی تھی اس کو جوڑنا خاصا مشکل ہے، خواجہ سعد رفیق،سردار ایاز صادق، رانا تنویر خان اگرچہ شہباز نثار ملاقات کے بعد تجدید تعلقات کیلئے کافی متحرک تھے مگر ان کی کوشش ’’انا ‘‘ کی برف پگھلانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مقتدر حلقوں سے تعلقات معمول پر آنے سے قبل نواز شریف چودھری نثار تعلقات بھی منقطع ہی رہیں گے۔ نواز شریف نے مقتدر حلقوں کے بارے میں جو انداز تکلم اختیار کر رکھا ہے چودھری نثار علی خاں اس انداز تکلم کے روادار نہیں۔
اپوزیشن عمران خاں حکومت کیخلاف تیز باؤلنگ کرکے اس کی وکٹیں گرانے کی کوشش کر رہی ہے،مگر وزیر اعظم اور اس کی عبوری کابینہ ترجمانوں کے ساتھ مل کر اپوزیشن کو کورونا ایس او پیز پر عمل پیرا ہونے اور احتجاجی پروگرام دو ماہ کیلئے موخر کرنے پر زور دے رہی ہے۔