جنگ لندن میں شہزاد علی کا مضمون پڑھ کر یوں لگا کہ انہوں نے میرے خیالات کی ترجمانی کردی ہو۔ انہوں نے جولکھا وہ درست ہے کہ ہمیں وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر یہاں آنے اور رہائش اختیارکرنے کو نصف صدی پوری ہورہی ہے ۔ہم یہاں رہتے ہوئے تمام شہری حقوق حاصل ہو نے کی بنا پر زندگی کے مختلف شعبوں میں دستیاب سہولتوں سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ہماری دوسری بلکہ تیسری نسل اعلیٰ تعلیمی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کے لئے زندگی کی منزلیں سہل کرتی جارہی ہے ان میں سے اکثر کا وطن عزیز میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنا بھی دشوار ہوتا۔پہلی نسل کے بیشتر افراد ، بڑھاپے کی سرحدوں میں داخل ہونے پر بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں جن کا مسلسل علاج ضروری ہوتا ہے، ذیابیطس ، دل کے امراض، آرتھرائٹس وغیرہ میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔کئی لوگ طویل مدت سے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ہمارے معذور بچے سپیشل اسکولوں میں کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہیں۔ اب اس کے عوض کیا یہاں کے ہسپتالوں، مختلف امراض کے علاج اور ضروریات کی تکمیل کے لئے قائم رفاہی اور خیراتی اداروں کی تھوڑی بہت امداد کرنا ہمارا فرض نہیں بنتا۔ آج کی طبی تحقیقات سے ہم ہی نہیں ہماری آئندہ نسلیں بھی استفادہ کریں گی کیا ان کی کوششوں میں کماحقہ حصہ ڈالنا صدقہ جاریہ نہیں۔ انسانیت کی بھلائی کا کام کوئی بھی کررہا ہو اس سے فائدہ سبھی اٹھاتے ہیں۔ ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ اعضاء کی ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پڑی گردے، جگر وغیرہ کی ضرورت ہوتو چشم ماروشن دل ماشاد آگے بڑھ کر فیضیاب ہوتے ہیں اور جب دینے کی باری آئے تو عذاب وثواب کی دلیلیں دے کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایشیائیوں میں گردوں کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے۔ حادثات،بیماری اور آپریشن کی صورت میں خون کی ضرورت ہر دم رہتی ہے۔ ایشیائی بچوں میں تھیلیسیما کی صورت میں تو ہمہ وقت اس کا انتظام ضروری ہوتا ہے۔ ہم یہ سب کچھ اپنا حق سمجھ کر حاصل کرتے رہتے ہیں ۔اس سلسلے میں مدد درکار ہو تو ہم مسلم غیر مسلم کی باتیں کرنے لگتے ہیں کیا ہمارا کام لینا ہی لینا ہے؟دینا کچھ نہیں۔ اور کچھ نہیں تو اظہار تشکر کے طورپر ان چیزوں سے فیضیاب ہونے کے بعد ہم بھی تو کچھ دے سکتے ہیں۔ڈونر کارڈ ہم میں سے کتنوں کے پاس ہے؟ اگر اعضاء کا لین دین حرام ہے تو دینے کے ساتھ ساتھ اسی دلیل کی رو سے لینا بھی تو حرام ٹھہرتا ہے جس کے لئے ہم دل وجاں سے تیار رہتے ہیں۔ کسی عزیز ازجاں ہستی کی زندگی اورموت کا سوال ہوتو اس وقت حرام حلال کے چکروں میں پڑنا کیا معنی؟ہاتھوں سے لمحہ لمحہ پھسلتی زندگی کو بچانا سب سے مقدم ٹہرتا ہے۔ ایک صاحب کی بیٹی چھ ماہ کے مسلسل علاج کے بعد صحت یاب ہوئی تو ہسپتال سے رخصت ہوتے ہوئے وہ چند نوٹ مجھے دیتے ہوئے بولے کہ پاکستان جانے والی اپنی عزیزہ کے ہاتھ آج ہی بھجوادیجئے کسی ضرورتمند کو وہاں دیدیں، میرا بیٹا کہہ رہاتھا اسی مرض سے متعلقہ فنڈ میں یہاں ڈالدیجئے تومیں نے کہا کہ غیر مسلموں کو کیا دینا! میں افسوس ہی کرتی رہ گئی یعنی غیر مسلموں کی مہیا کردہ اعلیٰ سہولتوں سے چھ ماہ مسلسل فائدہ اٹھا کر بچی کا صحت یاب ہوناروا ہے لیکن آئندہ تحقیق یا سہولتوں کی فراہمی کے لئے کچھ دینا غلط ہے۔ بے شک ہمارے بہت سے لوگ ایسا نہیں سوچتے یہاں دیتے ہیں اور دل کھول کردیتے ہیں لیکن ہماری عام روش یقیناً غور وفکر کی متقاضی ہے۔ بے شک اول خویش بعد درویش پہلا حق اپنوں کا بنتا ہے لیکن پچاس، ساٹھ برسوں سے جن غیروں کی سرزمین پر رہنا سہنا ہے جن کی فراہم کردہ سہولیات سے فیضیاب ہو رہے ہیں ان کا کوئی حق نہیں بنتا؟ احمد شہزاد کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ اپنے پاکستان اور ملت اسلامیہ کی سلامتی کی دعائیں کرتے ہوئے اس ملک اپنے وطن ثانی کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے۔ آخرعمر یہی بسر کررہے ہیں اور یہی ہماری آئندہ نسلوں کا ٹھکانہ ہے۔ آخر میں پھر یہی کہوں گی آج ہم ان کی طبی سہولتوں کی فراہمی اور ریسرچ میں معاونت کریں گے تو کل نئے علاج کی سہولتوں سے ہم بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ اپنے وطن کے قریہ قریہ پھیلے ضرورتمندوں کو بے شک فوقیت دیجئے۔خیراتی اداروں کی دل کھول کر مدد کیجئے لیکن یہاں بھی مالی امداد اور تعاون میں حصہ ڈالنا رائیگاں نہ جائے گا اپنے ہموطنوں کی مدد کیجئے ضرور کیجئے لیکن
گل پھینکے ہے ”اپنوں “کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی