بھارت نے قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدیا، لیکن اُس کی تمام چالوں اور کُھلی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے ہمیشہ ہمّت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھرپور انداز میں دفاعی جنگ ہی لڑی۔ اس دوران ہمارے جوانوں نے اپنا لہو دےکر پاک سرزمین کی حفاظت کی اورشجاعت و بہادری کا فقید المثال مظاہرہ کرنے والے ان جاں باز مجاہدوں کو حکومتِ پاکستان بھی مختلف اعزازات سے نوازتی ہے۔1971ءمیں پاک، بھارت جنگ میں لانس نائیک محمد محفوظ نے بڑی شجاعت اور دلیری سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ اسی جرأت و بہادری کے اعتراف میں بعدازشہادت انہیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز، ’’نشانِ حیدر‘‘ سے نوازا گیا۔ ہمارا 6ستمبر 2020ء کو اس بہادر سپوت کے گائوں جانے کا اتفاق ہوا، تو اُن کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔
محمد محفوظ شہید ضلع راول پنڈی کے ایک گاؤں، پنڈ ملکاں (حالیہ محفوظ آباد) میں 25 اکتوبر 1944ء کو پیدا ہوئے اور25 اکتوبر 1962ء کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ محمد محفوظ کا گائوں اسلام آباد سے جنوب مشرق کی جانب 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہوٹہ آزاد پتن روڈپر سہالہ کے مقام پر پھاٹک عبور کرتے ہی چکیاں بازارآجاتا ہے، یہیں سے لِنک روڈپر ایک راستہ پنڈ ملکاں کی طرف جاتا ہے، یہاں آویزاں بورڈ شہید کے مزار کی نشان دہی کرتا ہے۔ چکیاں سے پنڈملکاں کا فاصلہ تین کلو میٹر ہے، یہ پنڈ تقریباً بارہ ہزار کنال پر پھیلا ہوا ہے، یہاں کے بہتے چشمے، گنگناتے جھرنے، لہلہاتے کھیت اور لوگوں کے مُسکراتے چہرے ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
بہادر اور شیردل لوگوں کا یہ علاقہ اپنی آغوش میں لانس نائیک محمد محفوظ شہید سمیت سترہ شہداء کی آخری آرام گاہ سمیٹے، دنیا کو یہ باور کروارہا ہے کہ خطہ پوٹھوہار ملک کی عزت و سالمیت کا امین ہے۔ یہاں دوسری جنگِ عظیم میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے 25جرّی بہادر سپوتوں کی ایک یادگار بھی ہے، جس پر اُن کے نام کندہ ہیں۔ قریب ہی وہ اسکول ہے، جہاں محمد محفوظ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یہیں ایک اسکول کو لانس نائیک محمد محفوظ شہیدکے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اس کے علاوہ لانس نائیک محمد محفوظ شہید رورل ویلفیئر فائونڈیشن بھی ہے، جو اس علاقے میں مختلف کھیلوں کا انعقاد کرواتی ہے۔
محمد محفوظ بچپن ہی سے بہادر اور دلیر تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ انہیں تیراکی، باکسنگ اور کبڈی کا بہت شوق تھا، وہ گائوں کی کبڈی ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ پنڈ ملکاں کی طرف آنے والے راستے میں ایک بہت بڑا دریائی نالہ آتا ہے، برسات کے دنوں میں یہ نالہ پانی سے بھر جاتا، تو دوسری طرف جانے کا راستہ بند ہوجاتا، ایسے میں دوسری جانب سے کوئی چیز لانے کے لیے محمد محفوظ کی خدمات حاصل کی جاتیں، وہ اس نالے سے منٹوں میں تیرتے ہوئے دوسری طرف جا کر لوگوں کی مدد کیا کرتے۔ انہیں پاک فوج میں شمولیت کا شوق اپنے دادا گل زار خان سے ہوا، وہ اکثر اپنے دادا جان سے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے قصّوں کے ساتھ مختلف فوجی جرنیلوں کے قصّے بھی سنا کرتے، اور ان ہی کہانیوں سے متاثر ہوکر انہوں نے پاک فوج میں بحیثیت سپاہی شمولیت اختیار کی۔
وہ 8 مئی 1963ء کو 15 پنجاب رجمنٹ میں کوئٹہ کے مقام پر تعینات ہوئے اور 1965ء کی جنگ میں شان دار خدمات سرانجام دیں۔ 1971ء کی جنگ کے وقت لانس نائیک محمد محفوظ واہگہ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھے۔ 16 دسمبر1971ء کوجب جنگ بندی کا اعلان ہوا، تو پاک فوج نے جنگی کارروائیاں بندکردیں، لیکن اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پل کنجری کا وہ علاقہ، جو پاک فوج کے قبضے میں آچکا تھا، واپس لینے کے لیے دشمن نے 17اور 18 دسمبرکی درمیانی شب مکاری سے بزدلانہ حملہ کردیا۔ لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون نمبرتین ہراول دستے کے طور پر سب سے آگے تھی، اسے خود کارہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑا۔
محمد محفوظ نے بڑی شجاعت اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے گولہ باری سے شدید زخمی ہونے کے باوجود غیر مسلّح حالت میں دشمن کے بنکرمیں گھس کربھارتی فوجی کودبوچ لیا اور 17دسمبرکو اس حالت میں جامِ شہادت نوش کیا کہ دشمن کی گردن ان کے آہنی ہاتھوں کے شکنجے میں تھی۔اس معرکے کے دوران دشمن کی 3 لائٹ سکھ انفنٹری کے کمانڈنگ آفیسر، لیفٹیننٹ کرنل پوری نے، جو اگلے مورچے میں تھا اور محمد محفوظ کی جرأت وہمّت کی تمام کارروائی دیکھ رہا تھا، بعدازاں اُن کی بہادری کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’مَیں نے اپنی پوری سروس کے دوران اتنا بہادر جوان نہیں دیکھا،اگر یہ انڈین آرمی کا جوان ہوتا، تو میں اس شیر دل کو انڈین آرمی کے سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز کے لیے پیش کرتا۔‘‘انہیں 23 مارچ 1972ء کو پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا، جواُن کے والد مہربان خان نے وصول کیا۔
ہم نے لانس نائیک محمد محفوظ شہیدکے مزار پرحاضری کے موقعے پر فاتحہ پڑھی۔ صاحبِ قبر کا کردار قبر کوابد تک کے لیے زندہ کردیتا ہے۔ ہماری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی، جسم میں برقی رَو سی دوڑنے لگی، آنکھیں اشک بار ہورہی تھیں، سر عقیدت سے جھک گیا۔ مزار کے ساتھ ہی احاطے میں محفوظ شہید رورل ویلفیئر فائونڈیشن نے ایک پُروقار تقریب کا اہتمام کر رکھاتھا۔ مزار کے احاطے ہی میں شہید کے والد حاجی مہربان خان، اُن کے بھائی محمد معروف اور بھابھی کی بھی قبر ہے۔
محمد محفوظ شہید کی آخری آرام گاہ کے بالکل ساتھ دائیں جانب اُن کی والدہ آسودئہ خاک ہیں، ان کی قبر دیکھ کر بے اختیار ملکہ ترنم کا گایاجنگی ترانہ ذہن میں آگیا ’’اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے۔‘‘ مرکزی دروازے کے ساتھ ہی ایک لوح پر شہید کی حیات اور شہادت کی تفصیل درج ہے۔ مزار سے چند میٹر کے فاصلے پر آبائی گھر واقع ہے، ہم دیگر مہمانوں کے ساتھ وہاں گئے۔ بیٹھک کا دروازہ کُھلا ہوا تھا، اندر داخل ہوئے، تو خاصی بڑی بیٹھک تھی، جسے شہید کے اعزازات اور تصاویر سے مزیّن کیا گیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں محمد محفوظ شہیدکے بھتیجے، اسد معروف آگئے۔
وہ بہت گرم جوشی سے ملے اور ہمیں انہیں ملنے والا فوجی اعزاز ’’نشانِ حیدر‘‘ دکھایا۔ یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ ہم نے نشانِ حیدر کو اپنی آنکھوں کے سامنے اور چھوکے دیکھا، یہ ایک یادگار لمحہ تھا۔ہم نے اسد معروف سے محمد محفوظ شہید کے بارے میں پوچھا، انھوں نے اُن کے بچپن کی کچھ یادیں شیئر کیں اور پھر شہادت کے بعد کا واقعہ بتایا، جو انہیں اُن کے والد محمد معروف نے سنایا تھا کہ ’’محمد محفوظ کی شہادت کے بعد پِنڈ ملکاں میں فوجی افسران کا آنا جانا لگا رہا۔ یہاں جنرل ٹکا خان بھی آئے اور 15 پنجاب رجمنٹ کے ایس ای او بھی نے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
محمد محفوظ شہیدکی قبر مقامی قبرستان میں تھی، وہاں حاضری کے موقعے پر انھوں نے کہا کہ یہ جگہ بہت تنگ ہے، یہاں شہید کے شایانِ شان مزار کی تعمیر ناممکن ہے، لہٰذا قبر کو کسی کشادہ جگہ منتقل کیا جائے، تاکہ حاضری اور سلامی پیش کرنا آسان ہو۔‘‘ اس موقعے پر جنرل ٹکا خان نے قبر کی منتقلی کی ہدایت کی، جس پر شہید کے والد اور بھائی جسدِ خاکی کی منتقلی پر آمادہ ہوگئے۔ کیوں کہ اردگرد وسیع زمین موجود تھی۔ بعدازاں، مقامی علماء کی مشاورت سے طے پایا کہ شہید کے جسدِ خاکی اور قبر کو کسی کشادہ جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ قبر کی منتقلی کے لیے جو دن طے ہوا، وہ 30 جون کا تھا، گرمی عروج پر تھی۔
جیسے ہی قبر کشائی شروع ہوئی، تو بادل کا ایک ٹکڑا قبرستان پر آگیا اور ساتھ ہی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔ بارش صرف قبرستان کے اوپر ہی ہورہی تھی، باقی علاقے میں کڑکتی دھوپ تھی۔ جب محمد محفوظ شہید کی قبر سے مٹّی ہٹائی گئی، تو ایسی خوشبو آنا شروع ہوئی، جو اس سے پہلے کبھی کسی نے محسوس نہ کی تھی۔ قبر کشائی کے بعد جب قبر سے تابوت نکالنے لگے تو نکالنے والے کاپورا ہاتھ خون میں لت پت ہوگیاکہ نیچے تازہ خون تھا۔ تابوت باہر نکال کر چارپائی پر رکھا گیا، تو چارپائی سے بھی خون کے قطرے گرنا شروع ہوگئے، گھر سے مٹی کا برتن منگوا کر چارپائی کے نیچے رکھ دیا گیا تاکہ شہیدکے خون کی بے حرمتی نہ ہو۔ پہلے ارادہ تھا کہ تابوت نکال کر فوراً دوسری جگہ تدفین کر دیں گے، مگر شہید کے جسدِ خاکی سے اٹھنے والی خُوشبو اور نور ہی نور کی وجہ سے حوصلہ ہوا،تو پھر آرام سے منتقلی کی۔
چوں کہ پہلی تدفین کے وقت محمد محفوظ شہید کے بھائی محمد معروف موجود نہیں تھے، اس لیے انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے شہید بھائی کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، جس کی ان کے والد نے اجازت دے دی۔ جب چہرہ دیکھا گیا، تو سب حیران رہ گئے کہ شہید کی تدفین کے وقت چہرے پر دو تین دن کی شیو تھی، لیکن شہادت اور تدفین کے چھے ماہ بعد ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی، پھول بھی اسی طرح تازہ تھے، جیسے کہ ابھی ابھی پودوں سے توڑ کر وہاں رکھے گئے ہوں۔ اس موقعے پر وہاں موجود ہزاروں لوگوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے بھتیجے، اسد نے شہید کے گھر میں موجود اُن کی ذاتی استعمال کی اشیاء کے حوالے سے مزید بتایا کہ ’’شہید کی والدہ نے اپنے انتقال تک اُن کی چارپائی پر کسی کو سونے کی اجازت نہ دی۔ والدہ کو اُن سے بہت پیار تھا۔اسی لیے اُن کی شہادت کے بعدانہیں کبھی کسی نے ہنستے مسکراتے بھی نہیں دیکھا۔‘‘
بلاشبہ ایسے بیٹے نہ صرف ہر ماں کے لیے فخر و اعزاز کا باعث ہوتے ہیں بلکہ ملک و ملّت، کل عالمِ اسلام کا بھی اثاثہ ہیں۔ اور پاکستان کی برّی، بحری اور فضائی افواج نے مختلف مواقع پر جرأت و بہادری کے ساتھ عظیم داستانوں کے جو ابواب رقم کیے، دشمن کو ناقابلِ فراموش سبق سکھائے، وہ تاریخ کے صفحات پر جگمگاتے رہیں گے۔ ان شہداء، غازیوں نے تاریخِ ضرب و حرب میںجو کارنامے سرانجام دیئے، وہ ہمیشہ زندہ رہیں گےکہ جس فوج کے ہر افسر، جوان کی خواہشِ اوّلین شہادت ہی ہو، یقینی طور پر اُسے شکست دینا ناممکن ہے۔