ملک میں بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث ایک طرف اپوزشن جماعتیں پی ڈی ایم اتحاد کی صورت میں حکومت کے خلاف صف آرا ہیں تو دوسری طرف کورو وبا نے بھی دوسر ی لہر کے دوران بدستور اپنے پنجے گھاڑ رکھے ہیں اور عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے بھی مسلسل اس وبا کے نشانے پر ہیں۔ تاہم اگر ایک طرف اپوزیشن جماعیتں حکومت کے خلاف متحرک ہیں تو دوسری طرف حکومت بھی اپوزیشن کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدیتی ،یہی کہ اپوزیشن کو کورونا وبا کے نام پر احتجاجی جلسوں کے انعقاد سے روکنے میں ناکامی کےبعد ایک مرتبہ پھر اپوزیشن رہنماؤں کو نیب کے زرئیے قابو کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں حال ہی میں نیب خیبر پختونخوا نے پی ڈی ایم کے روح روان اور جےیو آئی قائد مولانا فضل الرحمن کے خلاف اونے پونے داموں سرکاری اراضی حاصل کرنے کے الزامات کے تحت نئی تحقیقات شروع کی ہیں، زرائع کےمطابق نیب کو شکایت موصول ہوئی کہ سابقہ دور میں نواز شریف نے جنرل ٹرانسپورٹ سروس ڈیپارٹمنٹ بند کی تھی، ٹرانسپورٹ سروس کی ملکیت 64 کنال اراضی کی مالیت اس وقت ایک کروڑ 40 لاکھ روپے تھی، ایک کروڑ 40 لاکھ مالیت کی64 کنال اراضی مولانا فضل الرحمن کو 40 لاکھ میں دی گئی.ان الزامات میں کتنی صداقت ہے یہ تو نیب اور عدالت کاکا م ہے جہاں تک مولانا کے خلاف ان تحقیقات کا تعلق ہے تواس سے قبل بھی نیب نے مولانا کو ایک اور کیس میں طلب کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کے اگلے دن نیب نے اپنے فیصلے پر خاموشی اختیارکی تھی۔
جس سے ثابت ہوتا کہ جوں جوں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک میں شدت آرہی تواس کےساتھ حکومت بھی اپوزیشن کو نیب کے زرئیے دبانے کےلئے نت نئے الزامات کا سہارا لے رہی ،حقیت تو ہے کہ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں سات سال سےزائد اور وفاق میں دو سال سے زائد حکمرانی کے باوجود سابقہ حکمرانوں اور سیاستدانوں پر اربوں ڈالر کی کرپشن الزامات عائد کرنے کے باوجود آج تک نہ تو کوئی الزام ثابت کرسکی ہے نہ کسی ان کے بقول کسی کرپٹ سیاستدان کومثالی سزا دی گئی جس کی وجہ سے نہ صرف نیب کی کاروائی پر ہمشہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں بلکہ اس قسم کے الزامات کو سیاسی اور انتقامی کاروائی قرار دی جاتی ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن یا سابقہ حکمرانوں کے خلاف تحریک انصاف کے الزامات میں کوئی سچ ہوتی تو پھر انہیں ان کے خلاف کاروائی کرنے سے کس نے روکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی اس قسم کی کاروائیوں اور دھمکیوں کے باوجود ان کی تحریک رکنے کا نام نہیں لے رہے اور حکمرانوں کی نااہلی کے باعث بات پارلیمنٹ سے استعفوں تک پہنچ چکی ہے جس میں خیبرپختونخوا سے مسلم ن ،جے یو آئی اور پی پی پی کے سات اراکین نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دیکر اپنی اپنی پارٹی قیادت کے حوالے کرچکے ہیں۔
جبکہ مذید استعفوں کا امکان ہے جس کی وجہ سے حکومت پر دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے اورحکومتی ایوانوں میں تھرتھلی مچ چکی ہے،حکومت کےخلاف اپوزیشن کے کامیاب جلسوں کی پھیچے کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے حکومت کے خلاف عوامی نفرت ہے ،حکومت نے اپنی نااہلی کی وجہ تمام بوجھ عام آدمی ڈال کراس کا جینا حرام کررکھا ہے ہرشخص اس حکومت کو بددعائیں دے رہا ہے مافیا کے ہاتھوں ترغمال حکومت نے عا م آدمی ریلیف دینے کی بجائے ماضی کے حکمرانوں کی طرح مافیاز کوہی فائدہ دیا ہےچائے ہو آٹا مافیا ہے یا چینی مافیادیکھئے کہ آنے والےدنوں میں پی ڈی ایم حکومت کوگھر بھیجنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یا پی ڈی ایم بھی سیاسی مصلحتوںکا شکار ہوکرسیاسی جلسوں کے زرئیے محض عام آدمی کو بے وقوف بنارہی ہے۔
ادھر ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی کورونا کے دوسری لہر کے وار جاری ہیں ،تاہم ہفتہ رفتہ میں پشاور کے بڑے سرکاری ہسپتال خیبرٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کے باعث نصف درجن سے زائد کورونا مریضوں کی ہلاکت کے افسوسنات واقعے ،صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کی جانب سےصوبے میں کورونا وبا کی دوسری لہر کا پھیلائو روکنے اور اس حوالے سے ہسپتالوں کو سہولیات کی فراہمی کے تمام تر دعووں کی کھلی کھول دی ہے ،جب ابھی تک اس افسوسناک واقعے کےاصل زمےداروں کاتعین کیا گیا نہ ہی وزیر صحت نےاپنی ناکامی اعتراف کیا ہے۔
محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی پورٹ کے مطابق تادم تحریر صوبے بھرکورونا کی دوسری لہرسے مزید 5 افراد جاں بحق ہوئے ہیں ،مرنے والوں میں تین کا تعلق ضلع پشاور سے ہے، جس کے بعد صوبہ بھر میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 1455 ہوگئی،اسی طرح صر ف ایک دن میں کورونا کے 232 نئے کیسز سامنے آئے ہیںجس کے بعد خیبر پختونخوا میں کورونا کے مجموعی کیسز کی تعداد 51404 ہوگئی، تاہم صوبہ بھر میں کورونا سے صحتیاب افراد کی تعداد 45672 ہوگئی ہے، اسی طرح صوبے میں کورونا کے ایکٹیو کیسز کی تعداد 4277 ہے۔
محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخواہ میں کورونا وائرس کا شکار ہوکر ایک اورلیڈی ڈاکٹرشہید ہوگئیںجس کے بعد کورونا وائرس سے شہید ڈاکٹروں کی تعداد 28 ہوگئی۔ پراونشل ڈاکٹرز اسوسیشن کی طرف سے جاری تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا میں اب تک 1160ڈاکٹرز کورونا کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ 410 نرسز کورونا وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر ڈیوٹیاں کرتے ہوئے کرونا کا شکار ہو چکی ہیں، اعداد و شمار کے مطابق کورونا وبا سے ا ب تک خیبر پختونخوا میں 27 ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر لڑتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں مگر صوبائی حکومت نے اعلان کے باوجود گزشتہ آٹھ ماہ سے صوبے میں کورونا سے شہید ہونے والے ڈاکٹرز اور دیگر ہیلتھ ملازمین میں شہدا پیکج کے تحت مالی امداد فراہم نہیں کی۔
جبکہ دوسری طرف صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ کورونا وبا کے حوالے سے اب تک 12ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود صوبے کے بڑے ہسپتال سہولیات سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ہفتہ رفتہ میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے کورونا نصف درجن سے زائد بے گناہ افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ صوبائی حکومت اور سوشل میڈیا پر دو اہم وزارتیں چلانےوالے وزیر صحت کی صحت پر کوئی اثر پڑا نہ ہی زمہ داروں کے خلاف موثر کاروائی کی گئی۔