• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

16دسمبر 1971ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے کہ اُس روز پاکستان دولخت ہوا اَور ہماری فوج نے پلٹن میدان میں بھارت کے فوجی کمانڈر کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ہمارے دانش وروں اَور حکمرانوں نے اِس قدر رُوح فرسا حادثے کے اسباب و علل پر گہرائی سے غوروفکر کرنے کے بجائے اِسے فراموش کر دینے کی روش اپنائے رکھی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ حادثے پر 49برس گزرنے کے باوجود ہم وہی غلطیاں باربار دُہرا رہے ہیں اور کئی دفعہ یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پھر کسی بڑے اَلمیے سے دوچار ہونے والے ہیں۔ بھارت جس نے سقوطِ مشرقی پاکستان میں فیصلہ کُن کردار اَدا کیا تھا، وہ بدستور ہمارے وطن کی شکست و ریخت میں کوشاں ہے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈے کی خوفناک جنگ تمام تر ہتھکنڈوں کے ساتھ دس پندرہ برسوں سے جاری ہے۔

اِس جاں لیوا صورتِ حال سے نجات پانے کے لیے ہمیں پوری دیانت داری سے اپنے گریبان میں جھانکنا، اپنی لغزشوں کا ٹھیک ٹھیک حساب لگانا اور قومی یکجہتی کے تقاضوں کا پورا پورا اِحترام کرنا ہو گا۔ پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان نے معاشی، معاشرتی اور فزیکل انفراسٹرکچر کے اعتبار سے حیرت انگیز ترقی کی تھی جس کا ذکر بی بی سی کے معروف صحافی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایل ایف رشبروک ولیمز (L.F. Rushbrook Williams) نے اپنی کتاب’ مشرقی پاکستان کا المیہ‘ (The East Pakistan Tragedy) میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ یہ صاحب وقفے وقفے سے مشرقی پاکستان آتے اور دُور دراز علاقوں میں جاتے اور زمینی حقائق کا مشاہدہ کرتے رہے۔ اُنہوں نے تحریر کیا ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت کے فراخ دلانہ تعاون سے ڈھاکہ جو ایک چھوٹا سا ضلعی قصبہ تھا، وہ جنوبی ایشیا کے ایک نہایت عالی شان صوبائی دارالحکومت کی شکل اختیار کر گیا اور مشرقی پاکستان میں کاغذ، پٹ سن، چائے اور فولادسازی کے بڑے بڑے کارخانے لگے۔ چٹاگانگ علاقے کی سب سے گہری بندرگاہ بنی جس کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ ذرائع مواصلات میں بہت بہتری آئی۔ راج شاہی یونیورسٹی کے قیام سے شمالی بنگال کے نوجوان بڑا مطمئن دکھائی دیتے تھے۔ اِس محیر العقول مادی اور تعلیمی ترقی کے باوجود مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی بڑھتا ہی گیا۔ اِس کا بڑا سبب مغربی پاکستان کی مقتدر طاقتوں کے غیرجمہوری اور ایک حد تک غیرانسانی رویے تھے۔ پاکستان کے اِس طاقت ور بازو میں جاگیرداری نظام اپنی تمام تر وحشتوں کے ساتھ رائج تھا جس نے اقتدار پرست خاندان پیدا کیے جو سیاہ و سپید کے مالک تھے۔ آگے چل کر یہ جاگیردار طبقہ سول اور فوجی بیوروکریسی کا حاشیہ بردار بنا۔ اِن تمام طاقتوں نے مل کر مشرقی پاکستان کی آبادی کے اعتبار سے غالب حیثیت ختم کرنے کیلئے بڑے حربے استعمال کیے جو مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی پیدا کرنے کا باعث بنتے رہے، پھر اِسی کے بطن سے عجیب و غریب فتنے جنم لیتے رہے۔

احساسِ محرومی کی شدت کے حوالے سے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ مغرب سے آنے والے افسر بنگالیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور اِنہیں نچلی ذات کے ہندوؤں کی اولاد سمجھتے تھے۔ اُن کی بودوباش کا مذاق اُڑایا جاتا اور اُن کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک رَوا رکھا جاتا۔ جناب عزیز احمد مشرقی پاکستان کے پہلے چیف سیکرٹری کی حیثیت سے ڈھاکہ گئے۔ وہ صوبائی وزیروں کی موقع بےموقع بےعزتی کرتے رہتے اور سائلوں کی شکایات اُن کے درمیان بیٹھ کر سننے کے بجائے مچھردانی لگا کر دور بیٹھتے اور اُنہیں اکثر دھتکارتے رہتے۔ مرکزی حکومت پر بیوروکریٹس نے قبضہ کر لیا تھا اور اعلیٰ ترین مناصب پر فائز ہو گئے تھے۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ملکی مفادات کی محافظ عسکری قیادت اَور جاہ پرست سیاسی قیادت کی ملی بھگت سے کھلم کھلا آئین کی خلاف ورزی کا مشغلہ جاری رکھا۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے مطابق خواجہ ناظم الدین کی برطرفی والا دِن پاکستان میں جمہوریت کے لیے پیغامِ اجل لایا تھا کیونکہ سیاست دانوں میں معقولیت اور صلاحیت اِس حد تک معدوم ہو چکی تھی کہ سبھی نے اِس تبدیلی کو بےچوںو چرا تسلیم کر لیا۔ اِس حوصلہ افزا صورتِ حال سے مخمور ہو کر اِسی گورنر جنرل نے 24؍اکتوبر 1954کی شام دستور ساز اسمبلی تحلیل کر ڈالی جس کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان تھے جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ سندھ چیف کورٹ نے اِس اقدام کو غیرآئینی قرار دیا مگر فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں کثرتِ رائے سے گورنر جنرل کے حکم کو جائز قرار دے دیا گیا جبکہ جسٹس کارنیلیئس نے اختلافی نوٹ لکھا۔ فیڈرل کورٹ کے فیصلے نے غیرآئینی اقدامات کے دروازے کھول دیے اور صدرِ مملکت اسکندر مرزا نے 7؍اکتوبر 1958کو مارشل لا نافذ کر دیا جس کے نتیجے میں وہ بنیاد ہی منہدم ہو گئی جس پر 1956میں عمرانی معاہدے کے ذریعے ایک ساتھ رہنے کی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔

اِس مختصر روداد سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قومی یگانگت اور وَحدت کے فروغ میں انسانی رویے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں جبکہ زبان کے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ زبان درازی، الزام تراشی اور کردارکشی سے اُمورِ مملکت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور نفرت کی آگ بھڑکتی رہتی ہے۔ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ وفاق میں اکائیوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کا احترام اَور حفاظت ازبس ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ قانونی اور سیاسی موشگافیوں کی بنیاد پر آئین کی مسلسل پامالی اعتماد کے رشتے کمزور کر دیتی اور مملکت کی عملداری میں شگاف ڈال دیتی ہے۔ ہم 24سالہ تاریخ کا مزید جائزہ لے کر اُن ناقابلِ برداشت حماقتوں اور فاش غلطیوں کی نشان دہی کریں گے جو سقوطِ مشرقی پاکستان کا باعث بنیں مگر اِس وقت اُن بہاریوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جو اپنی پاکستانی شناخت قائم رکھنے کے ’جرم‘ میں انچاس برسوں سے کیمپوں کی زندگیبسر کر رہے ہیں۔ اب اِن کی تعداد ڈَھائی تین لاکھ کے لگ بھگ ہے اور وہ تمام بنیادی سہولتوں اور شہری حقوق سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ انسانی برادری کو اپنا کردار اَدا کرنا چاہئے۔ امید ہے بنگلہ دیش کی حکومت بھی اُن کا انسانی بنیادوں پر خیال رکھے گی کہ اب حالات میں خوشگوار تبدیلی آ رہی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں کسی قدر بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ (جاری)

تازہ ترین