ڈاکٹرمشتاق حسین
(وائس پرنسپل ،ڈاؤ کالج آف بایو ٹیکنالوجی،ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)
’’2020ء بھی اختتام پذیر ہونے والا ہے ،گزشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں یہ سال بھی سائنسی تحقیقات کے اعتبار سے خاصا سرگرم رہا ۔پوری دنیا میں پھیلی عالمی وبا ’’کورونا وائرس ‘‘ پر تحقیق کرنے اور اس کی ویکسین تیار کرنے میں سائنس دان مصروف ِعمل رہے۔
علاوہ ازیں کئی بڑی بڑی تحقیقات فلکیات ،ماحولیات ،رکازیات اور طب کے میدان میں بھی ہوئیں ۔زمین کی تہہ میں مریخ سے مشابہہ چٹان دریافت کی گئی ۔اور2020ء میں سائنس کی دنیا میں مزید کیا کیا ہوا اس کا اندازہ آپ کو تحقیقات کی جائزہ رپورٹ پڑھ کر بہ خوبی ہوجائے گا ۔‘‘
************************
آپ جہاں کہیں بھی موجود ہیں۔ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالئے۔ آپ کو اپنی اردگرد کی دنیا سائنسی ایجادات سے بھری ہوئی نظر آئے گی۔ آپ کے ہاتھ یا جیب میں موجود قلم ہو یا ناک پر چڑھی عینک، آپ کا لباس ہو یا موجودہ حالات میں چہرے پر موجود ماسک، جس کمپیوٹر اسکرین پر آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں یا اخبار کے کاغذ سے لے کر اس سیاہی جس سے اسے طبع کیا گیا ہے ۔ سب کے سب کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق دور جدید کی سائنسی ایجادات سے ہی ہے۔
عام خیال یا کئی سائنس فکشن فلموں کے برعکس سائنسی ایجادات ایک نہایت ہی صبر آزما، مشکلات اور اکثر اوقات ناکامیوں سے بھری تحقیق کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہر سائنس داں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اگر اس کی تحقیق کسی چھوٹے یا بڑے نتیجے پر پہنچے تووہ دنیا کو اس کے نتائج کے پیچھے کار فرما سائنسی استدلال، تجربات، مشاہدات اور شواہد سے آگاہ کرے جو کہ سائنس کے مخصوص جرائد میں مقالوں کی صورت میں شائع ہوتے ہیں، جب سائنسدان اپنی تحقیق کو کسی سائنسی جریدے میں شائع ہونےکے لیے بھیجتے ہیں تو پہلے جریدے کا ایڈیٹر اس کی اہمیت کا تعین کرتا ہے۔
اگر تحقیق جریدے کے معیار کے مطابق پائی جاتی ہے تو ایڈیٹر اسے اس تحقیق سے تعلق رکھنے والے دو یا تین دیگر سائنسدانوں کو تنقیدی جائزےکے لیے بھیجتا ہے ۔ اگر تحقیقی مقالے کے نتائج اور اس میں پیش کئے گئے شواہد اور استدلال میں کچھ کمی یا خامی پائی جاتی ہے تو سائنسدان کو اسے دور کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور ان کے دور ہونےکے بعد ہی مقالے کو شائع کیا جاتا ہے ۔ اگر مقالے میں سائنسی استدلال یا شواہد کی شاید کمزوری یا کمی کی شناخت ہوتی ہے تو مقالے کو یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
لہٰذا کوئی بھی سائنسی تحقیق کڑے احتساب سے گزر کر ہی محفوض سائنسی جرائد میں شائع ہوتی ہے۔ اسی کڑے امتحان کے باعث تقریباً 50فی صد سائنسی تحقیقات کبھی شائع ہی نہیںہو پاتی اور کچھ بڑے جرائد میں تو سائنسی مقالے کے مسترد ہونے کے امکانات99 فی صد سے بھی زائد ہیں۔ یہ سائنسی طریقہ کار چاہے کتنا ہی سخت اور کچھ حالات میں ظالمانہ کیوں نہ ہو، اسی خود احتسابی میں سائنس کی ترقی پنہاں ہے۔ اسی طریقہ کار سے گزر کر شائع ہونے والی تحقیقات سے ہی سائنسدانوں اور ان سے منسلک جامعات کے معیار کا تعین کیا جاتا ہے۔ لہٰذا زیر نظر مضمون میں صرف ان تحقیقات کو ہی شامل کیا گیا ہے جو اس خود احتسابی کے عمل سے گزر کر 2020ء میں مختلف سائنسی جریدوں میں شائع ہوئی ہیں۔
کووِڈ۔19کی عالمی وبا نے 2020ء کو جہاں سماجی ، سیاسی اور معاشی لحاظ سے غیر معمولی بنا دیا وہاں سائنسی تحقیق کے میدان میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ وبائی بیماری کورونا کے باعث کئی سائنسی تحقیقات اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکی، کئی شائع نہیں ہو پائی اور کچھ کو سارز کووِڈ ۔2اور کووِڈ۔19کی تحقیق کی طرف موڑ دیا گیا۔ چند اہم اور چیدہ چیدہ تحقیقات کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ اس مضمون میں بیان کیا گیا ہے۔ آئیے، اب 2020ء میں کی گئی تحقیقات کے بارےمیں جانتے ہیں ۔
1929 امریکی سائنسدان ایڈون پھیل نے کائنات کے مستقل مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذا کیا کہ کائنات کے ستارے اور سیارے بہت تیزی سے ایک دوسرے سے دورجارہے ہیں ۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے اور اگرکائنات پھیل رہی ہے تو 1927ء میں جارج لیمنری کا پیش کردہ معروضہ درست ہے، جس کے مطابق پوری کائنات دراصل ایک بنیادی مادّے سے وجود میں آئی ہے۔ اس بنیادی مادّے یا ابتدائی ایٹم کی تخریب کو آج ہم بگ بینگ( BIG BANG) کے نام سے جانتے ہیں۔
مزید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بگ بینگ آج سے 13.7ملین سال پہلے وقوع پذیر ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر کائنات دو قسم کے ذرّات پر مشتمل تھی ۔
جنہیں Fermeon اور Boson کہا جاتا ہے ان تمام تحقیقات کے باوجود کائنات میں موجود 85 فی صد مادّے کا تعین نہیں ہو سکا اور اس مادّے کوڈارک میٹر( DARK MATTER )کہا جاتا ہے۔2020ء مارچ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک خاص قسم کے ذرّات d(2830)hexaquark Boson Einestine Condensate کائنات کی ابتداء میں ہی وجود میں آگئے تھے۔ اسی طرح سوئزر لینڈ میں قائم سرن (CERN) نامی ادارے نے foorcharm Quark Particleکو جون 2020ء میں رپورٹ کیا۔
یہ دونوں دریافتیں ڈارک میٹر کی مادّی نوعیت اور کائنات کی ابتداء کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ جولائی 2020ء میں کائنات کا پہلا 3D نقشہ تیار کیا گیا ،جس کی بناوٹ 20سال کے طویل سروےکے ذریعے کی گئی اس سروے سے یہ بھی پتا چلا کہ کائنات کے مختلف حصے مختلف رفتار کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔
کئی اور دریافتیں اور واقعات بھی فلکیات کے میدان میں وقوع پذیر ہوئے ۔مثال کے طور پر جنوری میں چین نے فاسٹ نامی ٹیلی اسکوپ کو خلاء میں بھیجا، یہ ٹیلی اسکوپ دنیا کی سب سے بڑی Filled Aperture ریڈیو ٹیلی اسکوپ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سےلگایا جا سکتا ہے کہ اسی طرح کی ٹیلی اسکوپ نے1950ءکی دہائی میںبگ بینگ کے ہونے کے واضح ثبوت فراہم کیے تھے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا نے تین مختلف کمپنیز بلیو اوریجن ( Blue Origin )،اسپیس ایکس ( Spacex )اورڈائنٹا ( Dynetia )کا انتخاب اپریل 2020ءمیں کیا جن کا کام 2024ء تک پہلی خاتون اور دوسرے مرد کو چاند پر پہنچانا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے جولائی 2020 ءمیں مریخ کے لئے اپنا پہلا مشن روانہ کر دیا ہے، جو کہ 2021ءسے کام کرنا شروع کر دے گا۔ اسی طرح چین نے جولائی 2020 ءمیں Tianwen -1 مریخ کی طرف روانہ کیاہے، جو کہ اپریل 2021 سے کام کرنا شروع کر دے گا۔
خلاء میں زندگی کا وجود
ایک اندازے کے مطابق ہماری کائنات تقریباً 200 بلین کہکشائوں سے مل کر بنی ہے اور ہر کہکشاں میں تقریباً 100 بلین ستارے ہیں اور تقریباً اتنے ہی سیارے ہیں گویا پوری کائنات میں سیاروں کی مجموعی تعداد کئی ملین ہے۔ ہماری زمین ان میں سے صرف ایک سیارہ ہے، جس پر حتمی طور پر زندگی پائی جاتی ہے لیکن سیاروں کی مجموعی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ زمین سے باہر بھی کچھ سیاروں پر زندگی موجود ہو سکتی ہے ۔ اور اگر یہ تصور کیا جائے کہ زندگی صرف زمین پر ہی موجود ہے تو مشہور امریکی سائنسدان Garl Sagan کے مطابق یہ کائنات کے خلاف ایک ناقابل یقین ضیاع ہے ۔
آج کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر خلاء میں زندگی کے آثار ڈھونڈنا مشکل ہے، مگر ناممکن نہیں لہٰذا ہر سال کچھ ایسی دریافتیں ضرور ہوتی ہیں جو کہ خلاء میں زندگی کی موجودگی کا پتہ دیتی ہیں۔جنوری 2020ء میں زہرہ(venus)نامی سیارے میں آتش فشائی عوامل کا پتہ چلا جن سے پیدا ہونے والی معدنیات بیکٹیریا کی نشونما کے لئے ضروری ہوتی ہے۔جنوری کے ہی مہینے میں ناسا کی ٹرانزٹنگ ایکسوپلانٹ سروے سیٹلائٹ نے زمین کی جسامت کے برابر ایک سیارے T01700d کی نشاندہی کی ،جس پر زندگی کی موجودگی کے امکانات ہیں ۔
اسی طرح مئی 2020ءمیں سورج سے انتہائی قریب ایک ستارے Proxima Centuria کے گرد ایسے سیارے کی موجودگی کا پتہ چلا جو گولڈی لاک زون ( Goldy Lock Zone )میں ہے۔ یہ سیارے اور اس کے مرکزی ستارے کے اس درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے جہاں اس کا درجہ ٔ حرارت زمین کے اوسط درجۂ حرارت کے برابر رہ سکے جو کہ زندگی کی نمو اور بقاء کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح تقریباً اب تک 4000 ایسے سیارے دریافت ہو چکے ہیں جن میں زندگی کے امکانات دیگر سیاروں کی نسبت خاصے زیادہ ہیں۔ اگست 2020ء میں ان میں سے ہی 24 ایسے سیاروں کی فہرست شائع کی گئی جن کا فاصلہ اپنےمرکزی ستارے سے تقریباً اتنا ہی ہے جتنا زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ہے۔ ان کی جسامت بھی زمین سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں بھی کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ چوں کہ کائنات مسلسل حیرت انگیز تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔
لہٰذا س بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ کئی سیارے جو آج گولڈی لاک زون میں نہیں ہیں کسی زمانے میں وہ اپنے مرکزی ستاروں سے زمین کی طرح ہی قریب یادور ہوتے ہوں گے۔ مثال کے طور پر جون 2020ء میں ہمارے نظام شمسی سب سے بیرونی سیارچے پلوٹو میں برف کی موٹی تہوں کے نیچے پانی کے بڑے سمندروں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگست 2020ء میں مریخ پر نمکین پانی کی نہروں کا بھی پتہ چلا ہے۔ مجموعی طور پر یہ تمام شواہد اس بات کی عکاسی کرتےہیں کہ ہم اس کائنات میں اکیلے نہیں۔
زمین پر زندگی کی ابتداء
سائنسی شواہد کی بنیاد پر یہ بات تقریباً تسلیم شدہ ہے کہ ہماری زمین تقریباً4.7 بلین سال پہلے وجودمیں آئی ہے اور فوسل کے تخمینے سے زندگی کی ابتدا ء تقریباً4 بلین سال پہلے ہوئی ہے ۔ یہاں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا زندگی زمین پر ہی کچھ سادہ کیمیائی مرکبات کے تعاملات کے نتیجے میں وجود میں آئی یا زمین پر زندگی کسی دوسرے سیارے سے منتقل ہوئی۔ جسے عام طور پر Pamspermia کا نظریہ کہتےہیں۔1950ء کی دہائی میں کیے گئے تجربات سے اس بات کے شواہد ملے تھےکہ زمین کے ابتدائی ماحول میں ہونے والے کچھ کیمیائی تعاملات کے نتیجے میں سادہ کیمیائی مرکبات یوریا اور امائنو ایسڈ جیسے سالموں میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو کہ زندگی کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں۔
2020ء میں بھی اس سلسلے میں کچھ اہم تحقیقات منظر عام پر آئیں۔ مثال کے طور پر ہارورڈیونیورسٹی میں کی جانی والی تحقیق کے مطابق دو مختلف آسٹیرائڈز (Astroids) Acfer-086 اورAllenden میں ہیمو لیتھن ((Hemolithin نامی پروٹین پائی گئی ہے جوکہ زندگی کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے اور چوں کہ زمین کے مختلف ادوار میں آسٹیر ائڈز مسلسل زمین سے ٹکراتے رہے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اسی طرح کے کسی آسٹیرائڈز سے زندگی زمین پر منتقل ہوئی ہو۔
اسی طرح رواں سال فروری کے مہینےمیں ناسا کےCuriosity Rover نے مریخ پرThiopheneنامی مالیکیول کا پتہ لگایا ہے۔Thiophene خام پیٹرول میں پایا جانے والا مالیکیول ہے اور چوں کہ پیٹرول جانداروں کے گلنے سڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا مریخ پر Thiopheneکی موجودگی وہاں زندگی کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ اوروہاں سے یہ زندگی خلائی گرد یا آسٹیرائڈزکے ذریعے زمین پر منتقل ہوئی۔
زمین پر زندگی پانی میں وجود میں آئی۔ اپریل 2020ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق زمین کی تہہ سے ایسی چٹانیں دریافت ہوئیں ہیں ،جس کی ساخت مریخ پر موجود چٹانوں سے مشابہہ ہیں اور ان چٹانوں میں بیکٹیریا کے کئی اقسام موجود ہیں۔
لہٰذا اس بات کے قومی امکانات ہیں کہ زندگی بیکٹیریا کی شکل میں مریخ سے زمین پر کسی آسٹیرائڈز یا کسی اور قسم کے ٹکرائوں کے نتیجے میں منتقل ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیکٹیریا اس خلائی سفر کے دوران زندہ رہ سکتے ہیں تو اگست2020ء میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ایک قسم کے بیکٹیریا Deinococeus rodiolurans خلاء میں تین سال تک زندہ رہ سکتے ہیں یہ تمام شواہد اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ممکنہ طور پر زندگی زمین سے باہر کسی اور سیارے یا فلکی جسم میں وجود میں آئی۔ اور پھر کسی خلائی حادثے کے نتیجے میں اپنی ابتدائی شکل میںزمین پر منتقل ہوئی۔ اور پھر ارتقاء کے عمل سے گزرتے ہوئے اس نے مختلف انواع اختیار کر لی۔
زندگی کا ارتقاء
سائنسی نقطۂ نظر سے یہ بات اب مسلمہ ہے کہ زمین پر موجود 87لاکھ قسم کے جانور تقریباً4لاکھ قسم کے پودے ایک کھرب قسم کے بیکٹیریا اور لاکھوں اقسام کے وائرس ارتقاء کے نتیجے ہی میں وجود میں آئے ہیں۔ ہر سال کی طرح 2020ءمیں بھی اس سلسلے میں کئی مضبوط شواہد سائنسی جرائد میں شائع ہوئے مثال کے طور پر کتنے (Dog) دراصل بھیڑوں سے Domestication کے ذریعے وجود میں آئے ہیں ،جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عمل آج سے پندرہ ہزار سال پہلے ہوا ہے۔ لیکن فروری 2020ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق Domestication کا یہ عمل تقریباً28500 سال پہلے ہوا ہے۔
کئی جانداروں کے زندہ رہنے کا داروں مدار دوسرے جانداروں پر ہوتا ہے۔ جنہیں عرف عام میں Parasite کہا جاتا ہے ،چوں کہ یہ جاندار اپنی خاصی ضروریات دوسرے جانداروں سے پوری کرتے ہیں۔لہٰذا ان کے جنیاتی مادّے میں کئی اضافی جینز ارتقائی عمل سے گزر کر ختم ہو جاتے ہیں ۔Mitochondrion جانداروں کے خلیات کو توانائی فراہم کرتاہے۔ اور اس کی موجودگی ہر قسم کے Parasite میں پائی گئی ہے۔اپنی نوعیت کے اس واحد Parasiteکی دریافت ارتقاء کی علامت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ کچھ عرصے میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کو جمع کر کے ایک بڑی تبدیلی کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔
اس کے برعکس رواں سال اپریل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق جو کہ "Nucko,yto viricotol"نامی وائرس پر کی گئی ہے ،اس سے ثابت ہوا کہ وائرس میں میٹا بولزم جیسے پیچیدہ حیاتیاتی عمل کے جینز موجود ہیں۔ اس سے پہلے یہ بات مسلمہ تسلیم کی جاتی تھی کہ وائرس میں میٹا بولزم کے جینز نہیں ہوتے۔
اپریل میں ہی ایک دلچسپ اور حیرت انگیز سائنسی تحقیق بھی سامنے آئی ہے، جس میں موجودہ انسان (Homosapieus) کی دو پرانی اقسام "Homo Ereitus"اور Homo antecessorکے دانتوں سے ان کی پوری جینیاتی ساخت معلوم کی گئیں۔ اس تحقیق سے ارتقاء کے نتیجے میں انسانوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔
ماحولیات
ہماری صنعتی اور سماجی ترقی نے ہمارے ارد گرد کے ماحول میں خاصی تبدیلیاں رونما کر لی ہیں۔ اگرچہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکا میں اس بارے میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ تبدیلیاں انسان اور جانداروں کی زمین پر بقاء کے لئے شاید سب سے بڑا خطرہ ہے اور وقتاً فوقتاً وہ ان کے شواہد سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوری میں شائع ایک تحقیق کے مطابق 2019ء میں سمندروں کے درجۂ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس طرح مارچ2020میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ایمزون کے گھنے جنگلات 50سال کے اندر ایک میدانی باغ میں تبدیل ہو جائیں گے۔ یہ صورتحال کسی ایٹمی جنگ کے نتیجے میں اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مارچ 2020ء میں شائع ایک تحقیق کے مطابق بھارت اور پاکستان میں ہونے والی ممکنہ ایٹمی جنگ زمین کے درجہ ٔحرارت میں پانچ سال کے لیے 1.8ڈگری سینٹی گریڈکا اضافہ کر دے گی۔ اور خوراک کی عالمی پیداوار میں 20سے50فی صد کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ نتیجتاً ماحولیاتی تبدیلیاں ہماری بقاء کے لیے موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا خطرہ گردانا جا سکتا ہے۔
طب
سال2020ء کا آغاز تو عمومی انداز ہی میں ہوا لیکن جنوری2020ء کےآواخر سے یہ بات محسوس کر لی گئی تھی کہ ایک بظاہر معمولی نزلہ، زکام، پیدا کرنے والا وائرس حیاتیاتی ارتقاء کے نتیجے میں ایک ایسے جرثومے میں تبدیل ہو چکا ہے جو ہماری سماجی اور معاشی زندگی کو جمود کا شکار کر دے گا۔آج ہم اس جرثومے کو سارز کووِڈ۔2اور اس سے پھیلنے والی عالمی وباء کو کووِڈ ۔19کے نام سے جانتے ہیں۔ ابتداء میں یہ وباء چائنا تک ہی محدود تھی اور 31جنوری2020ء میں اس بیماری کے ابتدائی شواہد سائنسی جریدے میں شائع ہوئے ،جس سے وائرس سے پیدا ہونے والی یہ بیماری کی شدت کا بھرپور احساس ہونے لگا۔
4 فروری 2020ء میں شائع ہونے والی تحقیق نے اس بات کے طرف اشارہ دیا کہ Romeo livieriاور Chloroquineنامی ادویات اس وائرس کے خلاف موثر ہے اور پھر 20مارچ کو ان ادویات کےTrailکا بھی آغاز ہو گیا، جس کے نتیجے میں3جون کوشائع ہونے والی تحقیق کے مطابق Chloroquine نامی دواسارزکووِڈ۔2 کے خلاف قطعی غیر موثر ہے۔ مضمون کے اوائل میں سائنسی تحقیق کے خود احتسابی کا ذکر کیا گیا تھا۔
اس عمل سے نابلد لوگ ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔ Chloroquineکے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ وہاں امریکا نے سائنس دانوں کے برعکس Chloroquineکے گن گانا شروع کئے اور یہاں لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے اسے پھلانگنا شروع کر دیا۔ لیکن پھر آخری جیت سائنس کی ہی ہوئی، جس کے مطابق یہ دوا ایک ساتھ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی کہانی سن مکھی اور دیگر ٹوٹلوں کی بھی ہے۔
9نومبر اور10نومبر کو PFIZARاور BIONTECHاور MODERNAنے اپنی ویکسین کا 90 فی صدسے زائد کامیابی کا اعلان کیا۔اب تک کوئی 200کے قریب ویکسین سارز کووِڈ 2کی اقسام تحقیقات کے مختلف مراحل میں ہے۔ جن میں سے 33لیبارٹریز میں ہونے والی تحقیقات سے گزرکر کلینکل ٹرائلز پر جا چکی ہیں ۔ ان 33میں سے7،Inective-virus، NonRepliatily ,viral vcctor-9،Viral RNA 4 , Viral NA-5،2 virusاور virus 5کے پروٹین کے مختلف حصوں پر مشتمل ہے۔
یہ ویکسین خصوصیات اور افادیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہیں۔ مثلاً Pfizerکی بنائی ہوئی ویکسین کی افادیت برقرار رکھنے کے لیے اسے انتہائی سرد ماحول میں رکھا جائے گا۔جب کہ Modernaکی ویکسین عام فریج میں بھی رکھی جا سکتی ہے۔اس صورتحال میں ہم یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں درآمد ہونے والی چین کی بنائی جانے والی ویکسین جو کہ فی الوقت پاکستان میں کلینکل ٹرائلز سے گزر رہی ہے۔
سارز کووِڈ2 کی وبا ءپر کی جانے والی تحقیقات اور ایک سال کے اندر ویکسین کی فراہمی سائنسی سوچ کی مضبوطی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حیاتیاتی ارتقاء کی طاقت کا بھی بھرپور احساس دلاتی ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایک ننھاسا وائرس شاید بظاہر آکر کرۂ ارض پر موجود ذہانت کے لحاظ سے سب سے طاقت ور مخلوق کو زیر کر سکتا ہے۔ یہ بات نا صرف سارز کووِڈ 2بلکہ دیگر جرثوموں خاص طور پر وائر س پر بھی صادق آتی ہے۔
وائرس کے وجود کے بارے میں نظریا ت
وائرس کے وجود کے بارے میں بھی سازشی نظریات جنم لیتے رہے لیکن26مارچ2020ء کو شائع ہونے والی تحقیق نے اس بات کے واضح شواہد فراہم کئے کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے پینگولین اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا۔ وائرس انسانی جسم میں اپنی Spike Proteinsکے ذریعے جڑنا ہے، جس کا تعین دنیا کے سب سے تیز ترین سپر کمپیوٹر، "SUMMIT" کے ذریعے کیا گیا۔ 24فروری کو Modernaنامی کمپنی نے ویکسین کی تیاری کا اعلان کیا۔5 جون کو شائع ہونے والی تحقیقات نے بالترتیب دو انسانی پروٹین TMPRESS2 اور Neuropilin-1کی شناخت کی ،جن کے ذریعے وائرس انسانی خلیات میں داخل ہوتا ہے، 29 مارچ 2020ءمیں شائع تحقیق کے مطابق سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت میں کمی کو وائرس کی بیماری کی علامات کے طور پر دیکھا گیا۔
10اپریل 2020ءکو ایک کوریائی خاتون میں وائرس کے دوبارہ حملے کی رپورٹ شائع ہوئی۔ گرچہ مزید تحقیقات نے یہ بات ثابت کر دیا ہے کہ وائرس کا دوبارہ حملہ Diagnostic Testکی کچھ حدود کی کمی کے باعث تھا۔15جون 2020ءکو شائع تحقیق نے اس بات کی نشاندہی کی کہ دنیا کی پندرہ سے اٹھارہ فی صد آبادی میں سارز کووِڈ 2 خطرناک بیماری پیدا کر کتا ہے۔
ایک اور تحقیق کے مطابق تقریباً سارز کووِڈ 2 کے 40فی صد انفیکشن بغیر کسی علامتوں کے ہوتے ہیں۔جولائی کے مہینے میں کی گئی ایک تحقیق نے اس بات کی نشا ن دہی کی کہ سارز کووِڈ 2 انسانی اعصابی نظام پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔12اکتوبر کو کی گئی ایک تحقیق نے یہ بات ثابت ہوئی کہ سارز کووِڈ 2 ایک ہی انسان میں دوبارہ حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل 2جولائی میں شائع ایک تحقیق نے سارز کووِڈ2 کی دوسری قسم جن میںD614Gنامی جینیاتی تبدیلی پائی جاتی ہے،اس کو سب سے زیادہ پھیلنے والی قسم قرار دیا ہے۔
طب کے میدان میں انقلاب
سال2020ء میں طب کے میدان میں جینیاتی Edithyاور سارزکووِڈ2پر کی جانے والی تحقیقات نمایاں رہیں۔ گزشتہ دہائی میں دریافت ہونے والی Genetic Eolipthyکی تیکنیک کو کرسپر ( CRISPR)بھی کہا جاتا ہے ۔ اس تیکنیک نے انسانی جینیاتی بیماریوں میں حیرت انگیز انقلاب برپا کیا ہے۔ کرسپر کی تیکنیک کو بروئے کار لاتے ہوئے اب ہم اس قابل ہو چکے ہیں کہ براہ راست بیماری پیدا کرنے والی جین کو ہی تبدیل کر دیں،جس کے باعث کیمیائی ادویات کااستعمال مستقل طور پر محدود ہو سکتا ہے ۔ اور کئی لا علاج امراض کا اس تیکنیکی کی بدولت علاج کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر فروری 2020ءمیں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں CRISPR-CAS12-A کے استعمال کے ذریعے کینسر کا وجود بننے والی جینیاتی تبدیلیوں کو درست کیا گیا ہے۔ نومبر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق CRISPR-CAS-9کو خون کے Tخلیات میں پیدا ہونے والی جنیاتی تبدیلیوں کے علاج کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
مارچ میں CRISPR-CAS-9کو ہی پیدائشی طًور پر جینیاتی خرابیوں کے باعث آنکھوں میں ظاہر ہونے والے نقائص کے علاج کے لیے استعمال کیا گیا ۔جون 2020ء میں B-thaleremiaاور Sill cell Amenia جیسی جینیاتی بیماریوں کا علاج بھیCRISPR-CAS-9سسٹم کے ذریعے کامیابی سے کیا گیا ۔اس سال شائع ہونے والی ان تمام تحقیقات کی وجہ سے جینیاتی بیماریاں اور کئی لا علاج جینیاتی امراض قابل علاج ہو جائیں گے۔