سال دو ہزار بیس کے ادب کے نثری جائزے سے یہ واضح ہوا کہ ادیبوں اور شاعروں میں خود نوشت سوانح عمریاں لکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اردو میں خود نوشت سوانح عمریوں نے بہت مقبولیت بھی حاصل کرلی ہے اور یہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ خود نوشتیں اپنے دور کے اہم تاریخی، سیاسی، سماجی اور ادبی واقعات و حالات کے علاوہ مشاہدات اور تجربات کو بھی محفوظ کرلیتی ہیں۔
دوسرا رجحان اہم کتابوں کی بار ِ دِ گر اشاعت ہے اور اس سلسلے میں مجلسِ ترقی ٔ ادب (لاہور) نے گزشتہ چند برسوں میں تسلسل سے اہم علمی کتابوں کی ازسر ِ نوطباعت کا اہتمام کیا ہے۔تحسین فراقی صاحب کی سربراہی میں مجلس نے سال ہاے گزشتہ کی طرح اِمسال بھی بعض کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کیے اور اس طرح کئی اہم کتابیں جن کا ملنا دشوار ہوگیا تھا اب پھر سے عام قاری کی دسترس میں آگئی ہیں، مثلاً :حیات ِ سعدی (از الطاف حسین حالی)، قواعدِ فارسی (از الطاف حسین حالی)،فسانہ ٔ عجائب (از رجب علی بیگ سرور، مرتبہ رشیدحسن خاں)، قدیم یونانی فلسفہ (از امام غزالی ، اردو ترجمہ حنیف ندوی)،ادبی تحقیق (از جمیل جالبی)، تاریخ اد ب ِ اردو (از جمیل جالبی، مشینی کتابت کے ساتھ)، دکنی کلچر (از نصیر الدین ہاشمی )، مکاتیبِ حافظ محمود شیرانی (مرتبہ مظہر محمود شیرانی)،وغیرہ۔
لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے کچھ نجی ادارے بھی اردو کی کلاسیکی کتابیں دوبارہ شائع کررہے ہیں ۔ اس سے جہاں پرانے ادبی شاہکار دوبارہ زندہ ہورہے ہیں وہاںطالب علموں اور محققین کے لیے بھی آسانی پیدا ہورہی ہے۔