• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب‘‘ کے تعلیمی ترانے کی گونج 2020 میں سنائی نہیں دی۔ کورونا سے ہونے والی تباہی تعلیم کے شعبے پر بری طرح اثر انداز ہوئی ۔ وبا کی آمد سے نہ صرف دنیا کے تعلیمی نظام کو شدید دھچکا لگا بلکہ رفتہ رفتہ مادر علمی اور طالب علموں میں فاصلے بھی بڑھ گئے۔ واقعی کورونا نے سفینہ علم کو طوفان کی نذر کردیا۔ 

جامعات وکالجوں اور اسکولوں کے لاکھوں طلبا وطالبات کا سلسلۂ تعلیم منقطع ہوگیا اور ’’آن لائن تعلیم‘‘ کی سہولت بھی صد فیض رسائی کا ہدف پورا نہ کرسکی۔’’تعلیم پر ایسا برا وقت کبھی نہیں آیا بہرحال خوش آئند بات ہے کہ2020 کے آواخر میں مرحلہ وار درس وتدریس کا آغاز ہوگیا ہےلیکن سال بھر تعلیمی صورتِ حال کچھ اچھی نہیں رہی۔ اس سال تعلیمی میدان میں کیا ہو، اس کا مختصراًجائزہ نذرِ قارئین ہے۔

آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں بہت پھیلائو آیا ہے ۔گزشتہ 73برسوں میں تعلیمی اداروں کی تعداد میں کئی گُنا اضافہ ہو اہے ۔آزادی کے وقت پاکستان میں 2یونیورسٹیاں تھیں جو اب بڑھ کر 200کے قریب پہنچ چکی ہیں ۔اسی طرح اسکولوں اور کالجوں کی تعدادمیں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ البتہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تعلیمی اداروں کے پھیلائو کے باوجود تعلیمی شعبۂ صرف مشکلات سے ہی دوچار نہیں ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکلات کی نوعیت اور ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ 2020ء میں تعلیم کے شعبہ کی کارکردگی ان ہی دوحوالوں سے دیکھی جاسکتی ہے، یعنی اس شعبہ میں پھیلائو اور ساتھ ہی ساتھ اس کو لاحق مسائل ۔

پاکستان کے موجودہ معاشرتی اور معاشی جائزے کے مطابق ملک کی شرح خواندگی صرف 58فیصد ہے، جو بیشتر ایشیائی ملکوں سے کم ہے ،یہاں تک کہ بنگلہ دیش کی بھی خواندگی کی شرح ہم سے زیادہ یعنی 61.5فیصدہے،جب کہ نیپال کی شرح 64.7فیصدہے۔ شرح خواندگی کی یہ ابتر صورتحال ملک کے تعلیمی بحران کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے،حالانکہ ماضی میں پاکستان اپنی سرکاری دستاویزات اور ساتھ ہی عالمی فورموں میںیہ کہتا آرہا ہے کہ ،جنوری 2020تک ہم اپنی شرح خواندگی کو 70فیصد تک لے جائیں گے۔حکومت نے 2020-21میں تعلیم کے لیے 83.3ارب روپے مختص کئے تھے، جوکہ بین الاقوامی معیارات کی روشنی میں بہت کم تھے۔

تعلیم کے شعبہ میں گزشتہ ایک برس میں کوئی غیر معمولی انقلابی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ،البتہ بلند آہنگ وعدے اور دعوے ضرور کیے جاتے رہے ہیں ۔2010میں آئین میں آٹھارہویں ترمیم کے متعارف ہونے کے بعد صوبوں کی تعلیمی ذمہ داریوں میں ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ لیکن گزشتہ 10برسوں میں ایک تو مرکزی تعلیم کی وزارت قائم کردی گئی، جس نے تعلیم کے شعبہ میں معیارات کو یقینی بنانے کو اپنا فرض منصبی قرار دیا ۔ یہ وزارت قیام سے اب تک اپنے کئی نام بدل چکی ہے ۔ لیکن عملاً اس کا کوئی ٹھوس کام نظر نہیں آیا ۔ 

گزشتہ ایک برس میں یہ وزارت بظاہر ایک ہی بڑا کام کرتی نظرآئی اور وہ بھی بڑی حد تک متنا زعہ ثابت ہوا۔ یہ کام ایک متفقہ اور یکساں نصابِ تعلیم کی تیاری کاکام تھا۔ ہر چند کے اس سلسلے میں حکومت نے ہی دعویٰ کیا ہے وہ یہ نصاب تیار کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے لیکن حکومت کے اعلانات کے باوجود کم از کم صوبہ سندھ کی طرف سے اس سلسلے میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ بعض مذہبی حلقوں نے بھی یکساں نصابِ تعلیم کے تصور کو رد کردیا ہے۔ اسی طرح بہت سے تعلیمی ماہرین نے بھی اس تصور پر اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ نصابِ سازی ازروئے آئین صوبوں کی ذمہ داری ہے اور یہ کام اپنے ہاتھوں میں لے کر حکومت نے دراصل آئین کی روح کے مطابق اقدام نہیں کیاہے۔

2020میں تعلیم کے شعبہ میں یکساں نصابِ تعلیم کے علاوہ جو دوسرا موضوع سب سے زیادہ زیرِبحث رہا وہ کورونا کی وبا کے پھیلنے کے نتیجے میں تعلیمی معمولات کے متاثر ہونے کا موضوع تھا۔ فروری کے مہینے میں جب چین کے شہر ووہان سے اس وبا کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو پاکستان کے نقطٔہ نظر سے سب سے زیادہ فکر مندی کی بات یہ تھی کہ اُس وقت سیکڑوں پاکستانی طلبہ چین میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ چین نے اپنے ہاں کے تعلیمی ادارے بند کردیے اور جن شہروں میں اس وبا کے پھیلنے کے آثار دیکھے وہاں مکمل بندش یا لاک ڈائون کردیا۔ اس پابندی سے پاکستانی طلبہ بھی متاثر ہوئے ان طالب علموں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا تو حکومت، وزارتِ تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس جانب متوجہ ہونا پڑا۔

مارچ 2020کے مہینے میں کورونا پاکستانی سرحدوں میں داخل ہوا اور پھر رفتہ رفتہ اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن (WHO)کے مطابق اب تک دنیابھر میں تقریباً ڈیڑھ ارب بچے کورونا کی وجہ سے لاک ڈائون ہونے پر مجبور ہوئے اور اس طرح ان کا شدید تعلیمی نقصان ہواہے۔ شعبہ تعلیم میں کورونا کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوئے۔

پہلے مرحلے میں تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہاں بھی مرکزی حکومت اور صوبوں کی سوچ کے فرق نے یہ مسئلہ پیدا کیا کہ تعلیمی اداروں کے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ وہ مرکزی وزارت ِ تعلیم کی ہدایات پر چلیں یا صوبائی حکومتوں کی ہدایات پر عمل کریں ،خاص طور سے سندھ میں، جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے ،جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی اور جس کے تحت سخت لاک ڈائون لگوایا گیا ،وہ مرکز کی حکمتِ عملی سے سو فیصد مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ 

ایک اور بڑا مسئلہ سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کی سوچ کا تھا۔ سرکاری اسکول صوبائی حکومتوں کی ہدایات پر چلنے پر راضی بھی تھے اور اس کے پابند بھی ،البتہ غیر سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ حکومت کی سخت لاک ڈائون کی پالیسی کی مزاحمت کررہی تھی۔ اس کا خیال تھاکہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اسکول کھُلے رکھے جاسکتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کے مالکان اپنے اسکولوں میںدوشفٹیں کرنے پر بھی راضی تھے لیکن ان کے اور حکومت کے درمیان اتفاق رائے نہ ہوسکا ۔

دوسرے مرحلے میں بغیر کسی کی مدد لیے ہوئے ،پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے کوشش کی کہ وہ اپنے طرزِ تعلیم کو تبدیل کرسکیں ۔اس سلسلے میں ڈیجیٹل ایجوکیشن کا آغاز ہوا۔ آن لائن ایجوکیشن کچھ نئی چیز نہیں تھی کیونکہ بہت سی یونیورسٹیاں اپنے طلبہ کو آن لائن ایجوکیشن فراہم کررہیں تھیں۔ البتہ وہ تعلیمی ادارے جن کی آن لائن تعلیم سے کبھی وابستگی نہیں رہی ،ان کے لیے یقینا یہ بالکل نیا تجربہ تھا۔ اس کا آغاز پہلے ملک کی یونیورسٹیوںنے کیا اور پھر اسکولوں اور کالجوں نے۔ لیکن تب بھی وہ پرائیویٹ اسکول جو اپنے طلبہ سے زیادہ فیس طلب نہیں کرتے تھے، وہ اس تجربے کے متحمل نہیں ہوسکے ۔ 

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں انٹر نیٹ کی سہولت کی پہنچ کی شرح 35 فیصد ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں ملک کے تمام تعلیمی اداروں کا آن لائن ایجوکیشن کو اپنانا انتہائی مشکل کام تھا۔ جنوری2020 میں ہونے والے انٹر نیٹ جائزے کے مطابق 38سے76ملین عوام انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں، جب کہ پاکستان کی کل آبادی کا تخمینہ 220 ملین سے زیادہ کا ہے۔

تیسرے مرحلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں سے آن لائن طریقۂ تعلیم کو اپنانے کا مطالبہ کردیا کیونکہ یہ ہی ایک آخری راستہ تھا۔ تب بھی تمام یونیورسٹیاں کامیابی کے ساتھ آن لائن تعلیم اختیار نہیںکرسکیں, اپنے پسماندہ تعلیمی ڈھانچے کی بِنا پر ان کے لیے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسی یونیورسٹیوں کو اجازت تھی کہ وہ31 مئی تک گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کردیں اور اسی دوران اپنے آپ کو تیار کریں تا کہ یکم جون سے آن لائن تعلیم کا آغاز کرسکیں۔ بالکل اسی طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے اسکولوں اور کالجوں نے بھی گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کردیا تاکہ اس دوران وہ خود کو آن لائن ایجوکیشن کے لیے تیار کرسکیں۔

اس کے بعد والے مرحلے میں تقریباً تمام تعلیمی ادارے آن لائن ایجوکیشن کے طرزِ عمل کو اپنا چکے تھے سوائے کچھ گورنمنٹ اداروںکے ۔اپنے دفاع میں انہوں نے طلبہ کی زیادہ تعداد کا مسئلہ بیان کیا، پھر ان ہی گورنمنٹ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے طلبہ کا تعلق ایسے علاقوں سے ہے جہاں یا تو انٹر نیٹ کی سہولت نہیں ہے یا پھر ان کے پاس الیکٹرانک آلات نہیں ہیں جن کی مدد سے تعلیم حاصل کریں، یہاں تک کہ ایسے اداروں میں تعلیم فراہم کرنے والے بیشتر اساتذہ بھی ان آلات کا استعمال نہیں جانتے ،لہٰذا انہوں نے حکومت کی طرف سے اداروں کو کھولنے کے اعلان کا انتظار کرنے کو بہتر سمجھا۔ 

اسی حوالے سے ایک ریسرچ اسکالر، مدیحہ اکرم نے جولائی 2020میں ایک تحقیق کی جس کا موضوع تھا ـ ’پاکستان میں کورونا کے اثرات‘ ۔اس تحقیق میںجمع ہونے والے اعدادو شمارسے بہت سارے حقائق سامنے آئے ۔پہلا یہ کہ آن لائن کلاسیں کبھی بھی طلبہ کی پہلی پسند نہیں تھیں ۔کورونا اور اس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈائون نے طلبہ کو مجبور کیا کہ وہ ڈیجیٹل ایجوکیشن کو اپنائیں۔ چونکہ تعلیمی ادارے بہت لمبے عرصے تک بند رہے لہٰذا طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے کی اُمید دھیمی پڑتی نظر آئی ۔ چنانچہ انہوں نے مجبوری کے طو رپر ہی سہی لیکن آن لائن ایجوکیشن کو اپنالیا۔ چونکہ یہ ایک نیا سفر تھا ،چنانچہ ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا طلبہ آن لائن ایجوکیشن عادی ہوتے چلے گئے۔ 

دوسرا یہ کہ طلبہ نے ریگولر امتحانات کوآن لائن امتحانات کے مقابلے میں زیادہ بہتر جانا کیونکہ زیادہ تر طلبہ کو ٹائپ کاری میں مہارت حاصل نہیں یا پھر ان کی کمپیوٹر کی مہارت بھی نہیں ہے۔ لیکن طلبہ نے سمیسٹر اور وقت ضائع کرنے سے بہترراستے یعنی آن لائن امتحانات پر ہی اتفاق کیا۔ بہت سے طلبہ کا کہنا تھا کہ آن لائن ایجوکیشن کا ریگولر ایجوکیشن سے کوئی مقابلہ نہیں۔ پہلے اساتذہ سامنے کھڑے ہو کر تعلیم دے رہے ہوتے تھے اور اب اسکرین کے پیچھے سے تعلیم فراہم کررہے ہوتے ہیں۔اس طرح طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بننے والا رشتہ کبھی مضبوط نہیں ہوپاتا۔اکثر و بیشتر اوقات تو پسماندہ انٹرنیٹ کی فراہمی کی بدولت یا تو اسکرین رُک جاتی ہے، یا استاد کی آواز آنا بند ہوجاتی ہے یا پھر وڈیوکا معیار خراب ہو جاتاہے۔

تیسرا یہ کہ اس طرزتدریس سے طلبہ کا کافی وقت جو یونیورسٹی آنے جانے میں لگ جاتا تھا وہ بچنے لگا لہٰذا بہت سے طلبہ نے آن لائن ایجوکیشن کو وقت کی کفایت کا طریقہ بھی سمجھا۔ اسی طرح کچھ طلبہ نے آن لائن ایجوکیشن کو اپنے حق میں اس لیے بھی بہتر جانا کہ جیسے پہلے وہ ریگولر کلاسوں میں لیکچرکو ریکارڈ نہیں کرسکتے تھے لیکن آن لائن کلاسوں میں لیکچر کو ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ آن لائن کلاسیں ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑا اقدام ہیں۔اسی دورانیے میں والدین اور اسکولوں کی طرف سے کچھ مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے کیونکہ وہ آن لائن ایجوکیشن سے مطمئن نہیں تھے۔کچھ والدین نے فیس میں کمی کا بھی مطالبہ کیا۔اس دوران حکومت نے ہونے والے تمام امتحانات کو بھی ملتوی کردیا، البتہ یونیورسٹیوں کو اجازت تھی کہ وہ اپنے حساب سے فیصلہ سنا سکتی تھیں۔

پاکستان کا شمار دنیاکے ان ملکوں میں ہوتا ہے جن کے تعلیمی ادارے کورونا کے باعث لاک ڈائون کا شکار ہوئے۔ان 19.1ملین طلبہ کے علاوہ جو کہ اسکولوں میں داخل نہیں ہیں یعنی(Out of School)ہیں،کورونا نے 40ملین مزید طلبہ کو بُری طرح متاثر کیاہے۔ اور اسکولوں جانے والے بچوں کی تعدا د اور بھی گھٹ گئی ہیں۔مزید یہ کہ مرکزی وزارتِ تعلیم و پروفیشنل ٹریننگ نے اپنی ویب سائٹ پر ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جو کہ اساتذہ اور والدین دونوں کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتاہے۔ ایک پروجیکٹ جس کی فنڈنگ عالمی بینک کرے گا اور اس فنڈ کا حجم 19.85ملین ہوگا، وہ بھی زیرِ غورہوگا۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا شمار دُنیا کے اُن چند ممالک میں ہوا جن کے کورونا کے باعث اسکولو ں میں داخل نہ ہونے والے طلبہ کی بڑھتی ہوئی شرح نے ملک کی معیشت کوبھی خراب کردیا تھا۔چاہے وہ اسکول ہو، کالج ہو یا پھر یونیورسٹی ہو ،سب کے سب کوئی دوسرا راستہ دیکھ رہے تھے۔ حالانکہ تعلیم کی فراہمی کے لیے لاک ڈائون کے فوراً بعد ہی پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت کی بتائی ہوئی پالیسی کے مطابق آن لائن ایجوکیشن کا آغاز کردیاتھا۔لیکن وہ تعلیمی ادارے جو کسی نہ کسی وجہ سے طلبہ کو تعلیم فراہم کرنے سے قاصر رہ گئے ان کے لیے حکومت نے ایک اہم فیصلہ کیا ۔وزیراعظم عمران خان نے اپریل کے مہینے میں ’ٹیلی اسکول‘ پروگرام کا آغاز کیا۔ 

اس ٹیلی اسکول پروگرام کے تحت حکومت نے کوشش کی کہ وہ طلبہ کا کورونا سے ہونے والا نقصان پورا کروائے ۔ پہلی جماعت سے بارہوہیں جماعت تک کے تمام طلبہ کے لیے تین مہینے تک گھر بیٹھے مفت تعلیم پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس کا مقصد ان طلبہ کو تعلیم فراہم کرنا تھا جو یا تو کورونا کے باعث اپنے اپنے دور دراز شہروں میں واپس جاچکے تھے یا وہ ایسے علاقوں میں رہائش پذیر تھے جہاں انٹر نیٹ کی سہولت موجو د نہیں ہے۔ ٹیلی اسکول نے اپنا اہم کردار ادا کیا۔ وزارتِ تعلیم نے پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔اسی مہم میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے بھی بہت سے غیر سرکاری فلاحی اداروںکے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کیا ۔ چنانچہ ٹیلی ویژن کا صبح کا وقت پرائمری کے طلبہ کے لیے وقف ہوگیا اور شام کا بڑی جماعت کے طلبہ کے لیے ۔

کورونا کے باعث ہونے والے تعلیمی نقصان کو کم کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے بھی ’تعلیم گھرگھر ‘ جیسا پروگرام لانچ کرکے اپنا کردار ادا کیا۔’تعلیم گھر‘ کی بدولت طلبہ گھر بیٹھے اپنے ٹیلی ویژن یا موبائل فون پر مفت تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔اس طرح سند ھ حکومت نے بھی غیر سرکاری فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر کِنڈ ر گارٹن سے پانچویں جماعت تک کے طلباکے لیے ایک موبائل ایپ لانچ کی۔

ٹیلی اسکول کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایلائٹ پاکستان اور نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈیولپمنٹ نے بھی گلگت ، بلتستان کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر طلبہ کے لیے ریڈیو پاکستان اور ایف ایم چینل پر ’معّلم ‘نامی پروگرام کو لانچ کیا۔ یہ پروگرام روز دوپہر 02:00بجے اور شام 07:00بجے FM-91گلگت اور سکردو میں ائیر ہوا ۔اسی طرح منسٹری آف ایجوکیشن کی محترمہ مشیرامبرین عارف نے بھی 'E-Teleem'نامی پروگرام کو متعارف کروایا جس سے طلبہ گھر بیٹھے تعلیم کرسکتے تھے ۔

آخری مرحلے میں جب لاک ڈائون ختم ہوا اور تمام تعلیمی ادارے ایس او پیز کے ساتھ کھل گئے تب بہت سے ماہرینِ تعلیم نے کورونا کے باعث آن لائن ایجوکیشن کے طرزِ تعلیم و تدریس کے حوالے سے یہ بھی تجویز کیا کہ تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ و ہ مخلوط جہتی آموزش(Hybrid Learning) کو جاری رکھیں،جس سے مراد ایسا نظام ہے جس میں ماضی کی طرح طلبہ و اساتذہ کلاس روم میں آمنے سامنے موجود ہوں اور ساتھ ہی یہ لیکچر آن لائن بھی جارہا ہو۔

کوووِڈ کی اس عالمی وبا کے باعث جو بحران سماج کے انتہائی اہم شعبے یعنی تعلیم میں آیاہے، اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جانے کتنے سال درکار ہوں گے، بالخصوص جوبچے اس سال اعلیٰ تعلیمی ادروں سے فارغ ہوں گے ان سے مستقبل میں یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ سال 2020 میں پڑھنے کے دوران ان کو کتب خانے اورتجربہ گاہ کی کم سہولت ملنے کی وجہ سے ان کی قابلیت کم رہ گئی ہو گی، تو وہ اس کو کس طرح پورا کر پائیں گے۔ کیا اس کا اثر ان کے روزگار پر نہیں پڑے گا؟اس کے علاوہ اس صورتحال میں کم مالی حیثیت والے گھرانوں اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے بچوں کی تعلیم کا نقصان بہت زیادہ ہونے کے باعث وہ پہلے سے موجودشدید طبقاتی نظامِ میں اب اور زیادہ امتیازی سلوک کا شکار ہو جائیں گے۔

اگر اس دوران کچھ بچے تعلیم کو خیرباد کہہ چکے تو ان کے دوبارہ اسکول میں داخل ہونے کے امکانات بھی محدود ہو چکے، خصوصاً اگر اس دوران انہوں نے اپنی محنت سے کچھ کمانا بھی شروع کر دیا ہو، جیسا کہ اس دوران مشاہدے میں آیا کہ کم عمر لڑکے چھوٹے کاروبار مثلاً ریڑھی لگانے کا کام زیادہ کرنے لگے تھے۔ پھر ایک اجتماعی المیہ یہ کہ جب مجموعی طور پر سارے ہی طلبہ کا آموزش کا حجم سکڑ گیا ہے توبطور ایک قوم ہم اس کی کمی کیسے پوری کر سکیں گے، جب کہ تعلیم میں کٹوتی کا یہ عمل آج بھی جاری ہے، اور ایک نئی لہر کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔

تعلیمی حوالے سے ایک بڑا نقصان طلبہ کی نفسیاتی صحت کے ذیل میں بھی ہوا ہے، جس کو کما حقہٗ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مختصر جگہ پر محدود رہنے، کھیل کی سہولت سے محرومی، سستی وکاہلی، ماں باپ کی پریشانیوں کو سمجھ نہ سکنا اور اپنی فرمائشوں اور ضدسے ان کو اور تنگ کرنا، اور بے وقت سونے جاگنے جیسے مسائل، پھر آن لائن کلاس کے لیے اضافی اخراجات ، سب نے طلبہ کو ان کی عمر کے حساس حصے میں ان دیکھا نقصا ن پہنچایا ہے۔ ہم آج سال 2020 کے آخری ہفتوں میں ان تمام سودو زیاں اور اپنے اعمال کے حساب میںکہیں بھی اطمینان کا درجہ نہیں پاتے۔دستِ قضا میں صورتِ شمشیر بننے کے لیے ہمیں آج ہمیشہ سے زیادہ محنت اور علم کی دولت درکار ہے۔

 ملک کی 17جامعات نے عالمی رینکنگ میں جگہ بنالی

2021 کے لیے عالمی یونی ورسٹیوں کی رینکنگ جاری کر دی گئ ہے۔ 93ممالک کی 1500 بہترین یونی ورسٹیوں کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔جن میں آکسفورڈ، اسٹینڈ فورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ پاکستان کی کوئی بھی یونی ورسٹی پہلی 500 یونیورسٹیوں میں جگہ نہ بنا پائی البتہ 600 بہترین یونیورسٹیوں میں عبدالولی خان اور قائد اعظم یونیورسٹی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کامسیٹس، ایگریکلچر یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس وٹیکنالوجی بھی فہرست میں موجود ہے۔

یونیورسٹی آف پشاور ،بہاء الدین زکریا یونیورسٹی بھی جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور یو ای ٹی لاہور کے علاوہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، پیر مہر علی شاہ ابڑو یونیورسٹی راولپنڈی، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور سرگودھا یونیورسٹی بھی 1500 یونیورسٹیز کی فہرست میں شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف ویٹنی اینڈاینمل سائنسز بھی اسی فہرست کا حصہ ہے۔ رینکنگ کے لیے مختلف جامعات کی ای کروڑ 30 لاکھ ریسرچ پیپرز کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

یکساں نصابِ تعلیم، نظام تعلیم

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت دو نومبر2020 کو اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی و صوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں کہا کہ، ملک بھر کے سرکاری و نجی اسکولوں اور دینی مدرسوں میں یکساں نصابِ تعلیم کا آغاز اپریل 2021ء سے ہو جائے گا جبکہ منصوبے کے مطابق چھٹی جماعت سے آٹھویں تک یکساں تعلیم کا سلسلہ سال2022ء سے اور نویں سے بارہویں گریڈ تک سال 2023ء سے شروع کیا جانا ہے۔ وزیراعظم کا مذکورہ اجلاس میں کہنا تھا کہ یکساں تعلیم کی بنیاد پر قائم ہونے والا نظام طبقاتی نظام کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا۔ 

یہ بات اس حد تک درست ہے کہ نظام تعلیم کی تبدیلی، جس میں تمام طلبہ کو اعلیٰ معیار کی تعلیم تک یکساں رسائی ہوگی، کئی رجحانات میں کچھ نہ کچھ فرق ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے ،تاہم معاشرتی نظام میں تبدیلی لانے کے لئے کوئی بھی ایسی تبدیلی کافی نہیں ہوتی جو ایک ہی رُخ یا ایک ہی جہت کی حامل ہو۔ طبقاتی نظام کی تبدیلی کے لئے جلد بازی میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم شاید اتنے مثبت نتائج نہ دے جتنے فوائد معاشرے کو مجموعی طور پر بہتری کے طرف لے جانے کی ہمہ جہت اصلاحات سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک تعلیمی نظام میں اصلاحات کا تعلق ہے، یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان اس باب میں اتفاق پایا جاتاہے۔ 

یکساں تعلیمی نصاب اور نظام کے لئے یہ یقیناً ایک اہم قدم ہوگا۔ اس لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کےمشترکہ ورکنگ گروپوں کومسلسل فعال رہنا ہوگا۔یہ کام محض قانون بنانے یا نصابی کتابوں کے تعین سے کہیں آگے تک جاتا ہے۔ ملک میں عشروں سے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کا تقرر چونکہ سفارش یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے، اس لئے تربیت یافتہ ،دیانت دار اور اپنے کام سے محبت رکھنے والے اساتذہ کے حوالے سے ایک خلا کا سامنا ہے جسے ہنگامی بنیاد پر جگہ جگہ تربیتی ورکشاپوں کے انعقاد کے ذریعے دور کرنا ہوگا۔ 

اساتذہ کے ریفریشر کورسوں اور مستقل تربیتی انتظامات کے لئے ٹریننگ کالج بنانا ہوں گے۔ ریفریشر کورسز کا ایک مستقل نظام بناناہوگا۔ اساتذہ کی لیاقت اور مشاہروں کے تعین کے لئے یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ ان اساتذہ سے اچھے معاشرے کی تشکیل کی امید وابستہ ہے۔ امتحانات میں نقل کا رجحان روکنے کی تدبیر کے طور پر امتحانی طریق کار اور سوالات کے انداز سمیت کئی چیزوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق نئے نظام تعلیم میں اسلامیات کا مضمون درجہ اول سے بارہویں جماعت تک تمام مسلم طلبہ کو پڑھایا جائے گا جبکہ سیرت النبی ﷺ کی تعلیم، کردار سازی میں معاون ہوگی۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے مذہبی تعلیمات کےنام سے ایک الگ مضمون متعارف کراجارہا ہے۔ 

مختلف مضامین اور مہارتوں کے ضمن میں کئی ملکوں کے تعلیمی نظاموں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں آگے بڑھنے کے لئے تعلیم کے اعلیٰ معیار اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ بعض مفادات کے حامل افراد اور حلقوں کی مخالفتیں بھی سامنے آئیں گی لیکن یہ بات بہر طور ملحوظ رکھنا ہوگی کہ ہمارا تعلیمی نظام اور معیار ہی اقوام کی برادری میں ہمارے مقام کا تعین کرے گا۔ ہم اگر اپنے ہر بچے کی معیاری تعلیم تک رسائی یقینی اور مختلف علوم تک دسترس محض نام کے لئے نہیں بلکہ اعلیٰ مہارت کے لئے ممکن بنا سکے تو ہر میدان میں وطنِ عزیز کی ترقی کی راہ کھل جائے گی۔

تعلیم اور کورونا کے چیلنجز

 2020تو کورونا کی نظر ہوگیا۔کورونا وائرس نے ہمارے نظامِ تعلیم کو پر بھی خوب اثر انداز ہوا۔ یہ حالات ہمارے نظامِ تعلیم کے لیے آزمائش بن کر آئے، اس کا کیسے مقابلہ کیا جاسکتا تھا۔ موجودہ صورتِ حال نے ہمیں اس بات کا احساس ضرور دلایا کہ جدید تقاضوں کے مطابق اپنے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔ وہ اسکول جو ڈیجیٹل کشتی میں سوار نہیں ہوسکے تھے وہ آج پیچھے رہ گئے ہیں کیوں کہ انہیں بچوں کے تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنے کے متبادل طریقوں کو مرتب دینے میں خاصی مشکلات پیش آئیں۔

اس وقت تعلیم، باہمی رابطوں کو مربوط کرنے کے علاوہ کاروباری مقاصد کے لیے گوگل کلاس روم سے لے کر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس تک مختلف طریقہ کار استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔پاکستان کے بڑے شہروں میں تو کسی نہ کسی طوت آن لائن کاسز کا سلسلہ کورونا وائرس کے دوران جاری رہا لیکن ساٹھ تا ستر فیصد دیہی اور پسماندہ ترین علاقوں میں تعلیمی عمل تعطل کا شکارہا اور تا حال ہے۔ شہروں میں زیادہ تر اسکول ،وقت اور پیسے کی بڑی سرمایہ کاری اور زیادہ محنت کے پیشِ نظر اپنے تعلیمی عمل میںڈیجیٹل علمی آلات کو شامل کرنے سے گریزاں رہے۔

وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے بین الصوبائی وزرائے تعلیم نے کہا کہ بچوں کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ اسکولوں کی بندش کے دوران جہاں تعلیمی سلسلہ آن لائن ہے وہاں، جہاں یہ سہولت نہیں ہے، اساتذہ ہوم ورک فراہم کریں اور اس سلسلے میں صوبائی حکومتیں فیصلہ کریں ۔11جنوری کو حالات کی بہتری پر تمام تعلیمی ادارے دوبارہ کھول دیے جائیں گے، تاہم جنوری کے پہلے ہفتے میں ایک جائزہ اجلاس ہوگا۔

وزارتِ تعلیم نے شیڈول بھی دے دیا ہے، جس کے تحت تدریس کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا جائے گالیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں کیوں کہ یہی طریقے گذشتہ لہر میں بھی اپنائے گئے تھے، آن لائن تعلیم پر عمل کیا گیا، بہر حال آج سوال نئی نسل کی تدریس اور ان کی صحت کو لاحق خطرات کاہے۔

بچوں کی تعلیم وتدریس براہ راست ’’کھلی چھٹی‘‘ کی نذر ہوگئی ہے ، حکومت کے تعلیمی مشیر اور ذمے دار عجیب مخمصہ میں مبتلا رہے، مربوط ایجوکیشن اسٹریجی کا فقدان رہا ، ایس اوپیز اور دیگر ادروں میں فکری اور انتظامی ہم آہنگی نہیںرہی۔ وزیرِ تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ اس سال کسی صورت بغیر امتحانات کے کلاسز میں بچوں کو پروموٹ نہیں کیا جائے گا۔

تازہ ترین