• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے بھائیو، بہنو اور بچو!

آج میں خاص طور پر اپنے ملک کے بلاولوں، بختاوروں اور آصفائوں سے مخاطب ہوں۔ آپ عوام الناس روزِ ازل سے میرے دل کے قریب رہے ہیں۔ میرا میری دھرتی اور اِس کے لوگوں سے لافانی تعلق میرے والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کی اعلیٰ میراث کا سب سے پیش بہا تحفہ ہے۔ میں نے یہ تعلق اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک نبھایا تاوقتیکہ مجھے شر و فساد کی قوتوں نے لیاقت باغ راولپنڈی میں 27دسمبر 2007کی شام لہو میں نہلا دیا لیکن میری دھج اور شان کو میرے قاتل بھی فراموش نہ کر سکے۔ میرا بیٹا بلاول 13سال سے اِس عشقِ لازوال کا سفر طے کر رہا ہے جس میں سچ، صبر اور آپ اُس کے ساتھ ہیں۔ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کا مشن بڑا کٹھن اور پُرخار ہے۔ اِسی راستے پر بھٹو صاحب، میں اور ہزاروں جانثار اپنے لہو کے چراغ روشن کئے منتظر ہیں کہ ’’راج کرے گی خلق خدا‘‘ کی منزل تک آپ سب پہنچ سکیں۔ میں نے اپنی زندگی کے تیس سال آپ کے حقوق کی جدوجہد میں گزار دیے۔ میرے اخلاص کے گواہ آپ بھی ہیں اور میرا رب بھی میری نیت اور عمل کا شاہد ہے۔ میرا مقصد اور جدوجہد اتنی عظیم ہے کہ مجھے ہزار بار بھی اس پر قربان ہونا پڑے تو میں تیار ہوں کیونکہ خالق سے عشق کا بنیادی تقاضہ یہی ہے کہ اُس کی مخلوق سے پیار کیا جائے۔ عوام کی خدمت، اُن کی آزادی، عزتِ نفس اور خوشحالی کے لئے اُنہیں روزگار، تعلیم اور صحت کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا ہی ہمارا مشن رہا ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ پارلیمان میں منتخب ہونے کے بعد میرے بلاول نے اپنی تقریر اور وژن کے ذریعے میرا سر فخر سے بلند کردیا، مجھے اچھا لگا کہ اُس نے پارلیمان میں انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہی کو چنا ہے جبکہ میں نے امور خارجہ کی کمیٹی کی سربراہی پسند کی تھی۔

میرے پاکستانیو!

میں نے اِس زندگی کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اِس زندگی نے میرا انتخاب کیا ہے۔ یہ زندگی جدوجہد، ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی سے عبارت ہے۔ شاید میں عیش و عشرت اور آرام و سکون سے اپنی زندگی بسر کررہی ہوتی اگر میرے والد کو غیرجمہوری طور پر پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کے مسند سے بزور طاقت ہٹا نہ دیا جاتا۔ اگر اُنہیں عدالتی قتل کے ذریعہ شہید نہ کیا جاتا تو شاید میں اپنی مرضی کی پیشہ ورانہ زندگی گزارتی۔ دراصل آمر ضیاء نے فریب، دھوکے اور مکاری کا خطرناک کھیل کھیلا۔ اپنے ظالمانہ اور منافقانہ اقتدار کو طول دینے کے لئے اُس نے ترقی پسند اور عوام دوست قوتوں کو دبایا اور دہشت گردی کے عفریت کا بیج بویا۔ ایسے وقت پر مجھ پر لازم تھا کہ میں عوام کے ساتھ مل کر آمرانہ اور جابرانہ قوتوں کے خلاف مزاحمت کروں۔ نہ تو پاکستان کوئی معمولی ملک ہے اور نہ ہی میری زندگی بےمقصد رہی۔ میرے والد اور دو بھائیوں کو شہید کردیا گیا۔ میری ماں میرے شوہر اور مجھے پابندِ سلاسل کیا گیا۔ مجھے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ جبری جلاوطنی میں گزارنا پڑا۔ اِن تمام دکھوں اور آزمائشوں کے باوجود میں خوش قسمت رہی کہ میں نے فرسودہ روایات کا قلع قمع کیا اور عالمِ اسلام کی پہلی منتخب اور کم عمر ترین خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ میرے وزیراعظم بننے سے مسلم معاشروں میں خواتین کے لئے ترقی کے راستے ہموار ہوئے۔ یقیناً میری زندگی اور طرز سیاست نے ناامید لوگوں کے لئے اُمید کی کرنیں پیدا کیں۔ جب کوئی میری زندگی کے متعلق آگاہی حاصل کرتا ہے تو اُسے یقین ہوتا ہے کہ مجھے اپنی ثقافت، تمدن، تہذیب اور مذہبی ورثہ ہر ہمیشہ فخر رہا ہے۔ میں نے ہمیشہ اسلام کے آفاقی پیغام سے دنیا کو روشناس کروایا۔ میرے ذاتی تجربات نے مجھے اقتدار کے پُرآشوب راستوں اور مکرو فریب کی سازشوں کا مقابلہ سکھایا ہے۔بلاول کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ سچ اور صبر کے اِس سفر کو جاری رکھے۔ اُس کے اِس سفر میں، میری جماعت جو کہ شہیدوں کی جماعت ہے، جو خدمت کی جذبہ سے سرشار سیاسی کارکنوں کی تربیت گاہ اور عوام الناس کی اُمیدوں کا مرکز ہے، اُس کی طاقت ہے۔ بلاول بھٹو اِسی اعلیٰ میراث کا امین ہے۔ میں جانتی ہوں کہ کچھ سیاسی یتیم اُسے وراثت کی سیاست کا طعنہ دیتے ہیں، یہی طعنہ وہ مجھے بھی دیتے تھے لیکن میری 30سالہ سیاسی جدوجہد نے مجھے اپنے شہید بابا کی اعلیٰ میراث کا اہل وارث ثابت کیا۔ اعلیٰ وراثت قابلِ فخر ہے اور مجھے یقین ہے کہ بلاول اس مشن کو آگے بڑھائے گا۔

ملکی حالات انتہائی دگرگوں اور پریشان کن ہیں۔ ریاست دلدل میں پھنسی جارہی ہے اور گزرنے والا ہر لمحہ اسے مزید مشکلات سے دوچار کررہا ہے۔ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق، جمہوری حقوق اور معاشی حقوق سلب کر لئے گئے ہیں۔ لوگوں کا معیار زندگی پست ترین سطح پر پہنچ رہا ہے۔ غربت و افلاس میں اضافہ اور لوگوں کے روزگار کے مواقع ختم کرنے سے عوام الناس کے لئے جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنا ناممکن ہے۔ لوگ مایوس ہوکر سیاسی اور مذہبی انتہا پسندی کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔ سیاسی یتیموں نے عوام کو مہنگائی کے سونامی میں ڈبو دیا ہے۔ معاشرتی ناہمواری، سیاسی مایوسی، عالمی تنہائی اور خالی خرانہ حکمرانوں کی قلعی کھول رہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ریاستی اور قومی سطح پر نیا لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ ملک کو ترقی پسند، مدبر رہنما کی اشد ضرورت ہے جو عوام کی مرضی سے اقتدار حاصل کرے۔ مجھے اُمید ہے کہ ہماری جدوجہد کا وارث اور اُس کی جماعت عوامی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور آخری فتح غریب عوام کی ہوگی۔

آپ کی: بےنظیر بھٹو

تازہ ترین