میری زندگی کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ یا تو میں جیل میں ہوتی ہوں اور دنیا کا سارا وقت میرے پاس ہوتا ہے لیکن کسی سے مل نہیں سکتی۔ یا میں جیسے اب آزاد ہوں اور بہت سے تقاضے میرے سامنے ہیں۔ جب میں جلا وطنی سے واپس آئی تو مجھے ایک بڑے استقبال کی توقع تھی لیکن جو کچھ ہوا وہ میرے بے پایاں تصورات سے بھی بڑھ کر تھا۔ عوام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا کسی نے اتنے ہجوم کی پیش بینی نہیں کی ہوگی۔ انتظامات مکمل طور پر ناکافی تھے جب میں چھوٹی تھی۔
تو میں سیڑھیاں چڑھنے کے بارے میں بھیانک خواب دیکھا کرتی تھی۔ اچانک میرے سامنے میرے خوابوں کی سیڑھی ۔ سامنے ہزاروں لوگ تھے اور مجھے ان میں سے گزر کر سڑک پر پہنچنا تھا۔ یہ معجزہ ہی تھا کہ میں پلیٹ فارم تک پہنچ گئی۔ میرا دل خوشی سے گنگنا رہا تھا۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ یہ میرے والد کی سرخروئی ہے۔ جنہوں نے ملک کیلئے جان دے دی۔ سارے ظلم استحصال آمریت کے تاریک اندھیروں کے باوجود عوام موجود ہیں جو ان کا احترام کر رہے ہیں۔ اعتراف کر رہے ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی آج 14 ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے
ہر ایک یہ کہتاہے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے لیکن آج عوام پوری شدت سے ’’ جئے بھٹو ‘‘ کا نعرہ لگا کر اسے غلط ثابت کر رہے ہیں۔میرے پاس ایک تقریر تیار تھی جو میں نے انگلینڈ میں طارق علی کی مدد سے لکھی تھی۔ طارق علی کے سیاسی نظریات اور میرے خیالات میں کافی فرق ہے۔ لیکن ہم دونوں جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں۔ تقریر سے پہلے میں ہمیشہ گھبرایا کرتی تھی۔ جب میں آکسفورڈ یونین کی صدر تھی تو مجھے یہ خوف رہتا تھا کہ میں درمیان میں ہی بھول جائوں گی۔
لیکن اب تو سب کچھ پہلی تقریر پر ہی منحصر تھا۔ لیکن جوں جوں مجمع بڑھ رہا تھا میں اپنے مقناطیسی قوت زیادہ محسوس کر رہی تھی اور ہجوم ہر لمحہ میرے ساتھ تھا۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ میں اپنے والد کے وفاقی جمہوری پاکستان کے تصور کو آگے لے کر چل رہی ہوں۔ انہوں نے ایک ایسے معاشرے کے قیام کا پروگرام بنایا تھا جس میں جنس رنگ و نسل اور مذہب کی بنا پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے میں بھی اس مقصد کے حصول کی خاطر جدوجہد کر رہی ہوں۔میرے دن کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ میں دورے پر ہوں یا گھر میں کراچی میں ہوں۔ جب میں گھر پر ہوتی ہوں تو صبح آٹھ بجے اٹھ جاتی ہوں۔ پھر میرا کوئی ملازم ٹرالی دھکیلتا ہوا ناشتہ لے آتا ہے جس میں چائے کے ساتھ پھل اور کچھ بران فلیکس ہوتے ہیں جس کے کچھ کارٹن میں انگلینڈ سے لے آئی تھی۔
لیکن میں اخبارات پڑھنے اور ان پر نشانات لگانے میں اتنی مصروف ہوتی ہوں کہ مجھے صرف چائے پینے کا وقت ملتا ہے میں وہ تمام بین الاقوامی رسالے حاصل کرتی ہوں جس میں پاکستان کے بارے میں خبریں ہوتی ہیں۔ اور جو پاکستان میں ممنوع نہیں ہیں۔ میرے پاس ہر شعبے کے مشیر موجود ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس سے ہر چیز پر مشورہ لوں۔ میں تفصیلات میں الجھنا نہیں چاہتی۔ اس لئے لوگ اپنی مختلف تجاویز پوری طرح تیار کرکے لاتے ہیں۔ صبح کی نشست آئینی اور پارلیمانی معاملات انٹیلی جنس رپورٹوں اور پارٹی امور کے گرد گھومتی ہے۔ تقریباً ایک بجے دوپہر میں کام کے دوران ہی ہلکا پھلکا کھانا کھاتی ہوں۔
میں سبزی اور دہی استعمال کرتی ہوں میں نہ تو کھانا پکاتی ہوں اور نہ ہی گھر کا کوئی کام کرتی ہوں۔ ایک پرانا خاندانی ملازم گھر کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہے۔ دوپہر کے بعد گرمی بڑھ جاتی ہے اس لئے 5 بجے شام تک لوگوں سے پندرہ پندرہ منٹ کی ملاقاتیں کرتی ہوں اور پھر پانچ پانچ منٹ کی ملاقاتیں جاری رہتی ہیں میں ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہوں کہ 8 بجے تک میرا آج کا شیڈول ختم ہوجائے۔ اس کوشش کے ساتھ میں بارہ بجے رات تک اپنا شیڈول مکمل کر پاتی ہوں۔جب میں دورے پر ہوتی ہوں میرا دن بہت ہی مصروف گزرتا ہے۔
مقامی منتظم پروگرام کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور مجھ سے اس کی منظوری لیتے ہیں۔ میں صبح کا وقت معلومات جمع کرنے اور تقریر لکھنے میں گزارنا چاہتی ہوں۔ لہذا میں دوپہر سے باہر کی مصروفیات شروع کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن پروگرام پر عمل مشکل ہی سے ہوتا ہے۔ جہاں بھی میں جاتی ہوں لوگ مجھ سے کھانے پینے کی فرمائش کرتے ہیں یہ ان کیلئے فخر کی بات ہے کہ میں ان کے ساتھ کھائوں پیوں اس لئے مجھے کئی جگہ کھانا پڑتا ہے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کہ میں ایک مسلم ملک کی خاتون سیاست دان ہوں حالانکہ مغرب کے مقابلے میں یہاں خواتین کے برائے نام حقوق حاصل ہیں ایشیا کی تاریخ میں سیاسی طور پر ممتاز خواتین کی تعداد کافی رہی ہے۔
میں خواتین کے حقوق کی پرجوش حامی نہیں ہں۔ لیکن میں ان ظالمانہ غیر انسانی قوانین کی شدید مخالف ہوں جو عورت کی اہمیت کو کم کرتے ہیں اور انہیں دوسرے درجے کا شہری قرار دیتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ سیاستدان بننے کی تمنا نہیں کی تھی۔ جب میں کمسن تھی ۔ تو وکیل یا صحافی بننا چاہتی تھی۔ میں نے آکسفورڈ میں پی پی ای پڑھا تھا۔ میں نے محکمہ خارجہ میں شامل ہونے کی خواہش کی۔ میرے والد نہیں چاہتے تھے کہ لوگ یہ سوچیں کہ چونکہ وہ وزیراعظم ہیں اس لئے مجھے محکمہ خارجہ میں داخل کر دیا گیا۔
اس لئے ان کے مشورے پر میں نے پھر حکومتوں اور بین الاقوامی تعلقات کے کورسوں میں داخلہ لیا۔جب میرے والد گرفتار ہوئے تو یہ میرے لئے اذیت ناک دور تھا۔ میں دیکھتی تھی۔ کہ پھانسی کی کوٹھری میں انہیں کس طرح رکھا گیا ہے انہوں نے انہیں قتل کرنے سے پہلے ہی جینے نہیں دیا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے والد کی طرف سے مکہ جانے کی بھی اجازت نہیں دی۔ لیکن میں نے جلاوطنی سے واپسی سے قبل ان کے نام پر عمرے کی سعادت حاصل کی۔ یہ اطلاعات بھی تھیں کہ ضیاء حکومت مجھے بھی قتل کر دے گی۔ اس لئے مجھے جیسے ہی موقعہ ملا میں عمرہ ادا کر آئی۔
جیل نے مجھے زندگی سے سمجھوتہ کرنا سکھایا۔ میرا پہلا مہینہ بدترین تھا مجھے یہ اطلاعات پہنچوائی جاتی تھیں کہ پارٹی کے بہت سے حامیوں نے سودا کر لیا ہے۔ مجھے کہا جاتا تھا کہ میں اپنی جوانی اور صحت برباد نہ کروں اس وقت میں اپنے آپ کو اتنا اکیلا محسوس کر رہی تھی کہ اگر کوئی شخص مجھ سے میٹھے لہجے میں یا مہربانی سے پیش آتا تو شاید میں اپنا راستہ چھوڑ دیتی۔ لیکن میرے ساتھ سخت رویہ رکھا گیا۔ اس لئے مجھ میں مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا ہوگئی۔ زیادہ تر مجھے بغیر کتابوں اور اخبارات کے قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اگر میں خط لکھنا چاہتی تو مجھے ایک وقت میں کاغذ کا ایک ہی ٹکڑا ملتا تھا۔
جس سے مجھ میں صبر کی قوت پیدا ہوگئی۔ اب صرف انہی راستوں میں سے ایک اختیار کرتی تھی جو میرے سامنے ہوتا تھے۔ اور ان راستوں کے خواب نہیں دیکھتی تھی جو ممکن ہوسکتے ہیں۔ جب میں رہا ہوئی تو یہ خالصتاً خوشی کا مقام تھا جب میرا طیارہ زیورچ ایئرپورٹ پر اترا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے ذہن اور جسم سے کتنے پہاڑوں کا بوجھ ہٹ گیا وہ لوگ جنہوں نے دکھ اور غم برداشت کئے ہوں جانتے ہیں کہ وہ طلسمی لمحہ کب آتا ہے یہی وہ طلسمی لمحہ تھا کہ میں بیرون دنیا کو دوبارہ دیکھ رہی تھی اور یہ حقیقت تھی کہ اب جنرل ضیاء میرے تعاقب میں نہیں ہے اور میں کسی وقت بھی گرفتار نہیں کی جاسکتی۔
میں انگلینڈ پہنچی اور باربیکن میں ایک فلیٹ میں رہنے لگی۔ مجھے لوگوں سے تعلقات استوار کرنے میں کچھ دیر لگی۔ مجھے سڑک پر جانے اور بہت سے نئے چہرے دیکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ پہلے میں زیر زمین ٹرمینوں سے سفر کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن میرا دل بہت تیز دھڑکنے لگتا تھا اس لئے میں نے بالآخر ٹیکسیوں سے آنا جانا شروع کر دیا میرے دن پارٹی معاملات پر فیصلے کرنے اور عالمی تعلقات پیدا کرنے میں مصروف ہوتے تھے۔ سوشل رابطوں کا وقت نہیں تھا۔
اب میں وطن میں ہوں۔ میں دن میں 16 گھنٹے کام کرتی ہوں شام کے وقت زیادہ تر چار گھنٹے تک پورے ملک میں لوگوں سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے ملکی صورتحال سے آگاہی حاصل کرتی ہوں۔ جتنی جلد بھی پاکستان میں انتخابات کروا کر ملک کو آمریت سے نجات دلائیں بہتر ہوگا۔ جب میں لندن میں تھی تو ایک ممتاز سیاست دان نے مجھے متنبہ کیا تھا کہ میں گھر میں ہوں کار میں یا باغ میں یا جہاں کہیں بھی جائوں گی دوسرے میری بات چیت سنیں گے ان کے مشورے پر میں نے اس کوشش کو ناکام بنانے کا مخصوص آلہ خریدا جسے میں ہر وقت اپنے بیگ میں رکھتی ہوں ان کی بات درست تھی جب میرے پاس یہ آلہ نہ ہو۔ تو میں سن سکتی تھی۔ کہ سکیورٹی فورسز والے میرے شارٹ ویو ریڈیو پر مجھے سننے کی کوشش کرتے تھے۔ نہیں میں تنہا نہیں ہوں میں اتنے لوگوں سے ملتی ہوں جو میرے لئے دعائیں کرتے ہیں اور میں جوکچھ کر رہی ہوں اس سلسلے میں میری حمایت کرتے ہیں۔ ان کی حمایت مجھے مضبوط کرتی ہے۔ جیل میں جھے نیند بڑی مشکل سے آتی ہے لیکن اب ادھر آنکھیں بند کیں اور ادھر محو خواب ہوگئی۔