اسلام آباد(تجزیہ، فاروق اقدس) جمعیت علمائےاسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰنجو اپوزیشن جماعتوں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر بھی ہیں،بادی النظر میں منگل کا دن انکی چار دھائیوں پرمحیط سیاست پر بھاری رہا۔
پہلا دھکچہ انھیں اس وقت لگا جب مولانا شیرانی نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کو جے یو آئی سے الگ کرنے کا اعلان کیا اوردوسرا سیاسی صدمہ انھیں اس وقت پہنچا جب پیپلز پارٹی کی سی ای سی کے اجلاس میں شرکاء کی اکثریت نے اسمبلی سے استعفوں کی مخالفت کردی۔
مولانا فضل الرحمن پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن رہے اس دوران انھوں نے ملکی سیاست میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ کئی سیاسی معرکے بھی انجام دیئے جن میں ان کا دورہ ہندوستان بھی شامل ہے۔
جہاں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے ان کی ملاقات اور بھارتی میڈیا سے ان کی گفتگو کو اسلام آباد اور دہلی کے تعلقات کے حوالے سے وسیع تناظر میں دیکھا گیا۔
لیکن منگل کو ماضی میں ان کے ’’معتمدین خاص‘‘نے مولانا شیرانی کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں ان سے طویل سیاسی رفاقتیں توڑتے ہوئےنہ صرف ان سے منہ پھیر لیا بلکہ اجلاس کے دوران باغیانہ اور جارحانہ لب و لہجے میں ان کے بارے میں گفتگو کی۔
جسکی تفصیلات میڈیا پر دیکھنے کے بعد مولانا مشتعل نہ سہی لیکن آزردہ ضرورہوئے ہونگے۔ لیکن ملکی سطح پر ان کی سیاسی مقبولیت اور اہل سنت کے مدرسہ دیوبند کے پیروکاروں کی ان سے مسلکی وابستگی اور عقیدت بدستور قائم رہیگی۔