پاکستان کے ایسے ادیب، جنہوں نے غیر منقسم ہندوستان میں لکھنا شروع کیا اور شہرت پائی۔ ادبیات خاص طور پر افسانہ نویسی میں ایک مستند حوالہ بنے، ان ادیبوں میں سے ایک ممتاز نام’’غلام عباس‘‘ کا ہے، جنہوںنے کم لکھا، مگر خوب لکھا۔ ان پر ادبی نقادوں نے اظہار خیال کیا اور تحقیق بھی ہوئی۔ پاکستان کے متعدد اشاعتی اداروں نے ان کی کہانیوں کو شائع کیا ہے۔ ان پر تحقیق کے تناظر میں ایک اہم کتاب’’غلام عباس۔سوانح و فن کا تحقیقی جائزہ‘‘ ہے، جس کو ایک اردو زبان بولنے اور لکھنے والے جاپانی محقق اور مدرس’’سویامانے یاسر‘‘ نے لکھا ہے، جس میں ان کو پاکستانی مشاہیر خواجہ محمد زکریہ اور مشفق خواجہ کی معاونت دستیاب رہی۔یہ غلام عباس کی سوانح و فن کے حوالے سے مستند کتاب سمجھی جاتی ہے۔
غلام عباس 1909 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے جبکہ 1982 کو کراچی میں انتقال ہوا۔ کم عمری میں ہی لکھنے کی طرف راغب ہوگئے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں تراجم کرنے سے ابھر یں، انہوں نے کئی عالمی کہانیوں کو اردو قالب میں ڈھالا۔ مختلف ادبی رسالوں کے لیے بھی تراجم کیے، آگے چل کر ان کے لیے افسانہ نویسی بھی کی۔ ان رسالوں میں نیرنگ خیال، ہمایوں، سہیلی، امرتسر، شیرازہ، تازیانہ اور دیگر رسائل و جرائد شامل ہیں۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ان کے لکھنے کی باقاعدہ شروعات ہوئیں، تراجم اور تخلیق دونوں نے ان کو اپنے خیالات کے اظہار کا بھرپور موقع دیا۔
وہ بچوں کے کئی رسائل کے مدیر رہے۔ بچوں کے لیے تراجم اور افسانوی ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کے تین افسانوی مجموعے، آنندی، جاڑے کی چاندنی اور کن رس اشاعت پذیر ہوئے جبکہ تین ناولٹ گوندنی والا تکیہ، جزیرہ سخن وراں، دھنک چھپے۔ بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ اور کئی غیر ملکی شعر و ادب کے تراجم کی اشاعت کتابی صورت میں ہوئی، ان میں روس، فرانس، چین، جاپان سمیت دیگر ممالک کی کہانیاں اور شاعری شامل ہے۔ سابق صدر پاکستان جنرل ایوب خان کی سوانح عمری’’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ کا اردو ترجمہ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اسٹیج کے لیے کچھ ناٹک بھی قلم بند کیے۔ ان کو ادبی خدمات کے سلسلے میں حکومت پاکستان کی طرف سے’’ستارہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔
دوسری جنگ عظیم میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے، پھر ریڈیو پاکستان اور بی بی سی سے بھی منسلک رہے۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کرنے کے ساتھ بامعاوضہ ترجمہ نویسی شروع کی اور کم عمری میں معاوضہ حاصل کرنے والے مترجم ثابت ہوئے۔ آل انڈیا ریڈیو کے زمانے میں، اس ادارے کے رسالے’’آواز‘‘ کے مدیر بنے اور پاکستان آنے کے بعد ریڈیو پاکستان کا رسالہ ’’آہنگ ‘‘جاری کیا، جو آج تک شائع ہو رہا ہے۔ زندگی میں بہت سارے نشیب و فراز دیکھے۔
کم عمری میں والد کی رحلت کا دکھ برداشت کیا، زندگی کے مصائب قریب سے دیکھے، معاشرے کی ابتری کا درد شاید ان کی ذاتی زندگی کے دکھوں سے بھی عبارت تھا۔ یہ تلخ تجربات ان کی کہانیوں میں پنہاں محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے مشہور زمانہ افسانے’’آنندی‘‘ کو بے حد شہرت ملی، اسی افسانے پر ہندوستانی آرٹ سینما میں فلم بھی بنی۔ ان کے دیگر مشہور افسانوں میں اوورکوٹ، حمام، دھنک، سمجھوتہ، سیاہ و سفید، کتبہ ہیں۔
’’آنندی‘‘ معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی کی تصویر کشی کرتا ہے، اسی نام سے شائع ہونے والے کہانیوں کے پہلے مجموعہ کا سرورق ’’عبدالرحمن چغتائی‘‘ نے بنایا تھا، جو پاکستان کے نامور مصور تھے۔ یہ کہانی بیان ہے، ایک ایسے محلہ کا، جو عین شہر کے بیچ ہے اور جہاں طوائفوں کاڈیرا ہے۔ اس مخصوص شہر ت کی حامل عورتوں کے لیے، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان عورتوں کو شہر بدر کیا جائے تاکہ معاشرہ ان کی وجہ سے اخلاقی برائیوں سے پاک ہوسکے، لیکن کہانی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اخلاقیات کے یہی ٹھیکے دار اس وقت ان عورتوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں، جب ان کو مالی فوائد ملتے ہیں۔ معاشرے کے منافقانہ رویوں کو کہانی میں بیان کیا گیا اور اچھائی برائی کے ان پہلوئوں کی عکاسی کی گئی، جو بظاہر دکھائی دینے والی حقیقت سے مختلف ہوتے ہیں۔
1983 میں غلام عباس کے اس مشہور افسانے’’آنندی‘‘ پر بننے والی فلم ’’منڈی‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی، جس کے ہدایت کار شیام بینگل ہیں۔ انہوں نے شاندار فلم سازی سے اس کہانی اوران کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھر دیے۔ اس فلم کا اسکرین پلے شیام بینگل نے خود لکھا اور دو دیگر قلم کاروں شمع زیدی اور ستیادیو دوبے کا اشتراک بھی شامل تھا۔ فلم کے فنکاروں میں نامور ہنرمندوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں نصیرالدین شاہ، اوم پوری، امریش پوری، سعید جعفری، پنکج کپور، شبانہ اعظمی، سمیتا پٹیل، نینا گپتا، رتنا پھاٹک سمیت دیگر شامل تھے۔ یہ فلم ہندوستانی سینما میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔
عالمی ادب اور بالخصوص اردو ادب میں ناولوں اور افسانوں کو سنیما میں ڈھالنے کے لیے اگر کسی پیمانے کی ضرورت ہے، تو یہ فلم وہ پیمانہ ہے، جس سے یہ ماپا جاسکتا ہے کہ اچھا تخلیقی ادب کس طرح سینما کے پردے پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔